روم سے ایک گھنٹے کی مسافت پر واقع ایک ساحلی تفریح گاہ کاپلبیو میں تین خواتین، بیٹی، ماں، نانی ، موسم گرما کے ایک روشن دن کا لطف اٹھا رہی ہیں۔ انہیں کرونا وائرس کے لاک ڈاؤنز اور دیگر پابندیوں نے مہینوں ایک دوسرے سے دور رکھا تھا۔
ایک طویل مدت کے بعد مل کر کھانا کھاتے ہوئے وہ بہت خوشی محسوس کر رہی تھیں۔
خوشی کے یہ لمحات صرف ان تین خواتین کی زندگی میں ہی نہیں آئے بلکہ طویل عرصے سے کرونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے عائد پابندیوں میں نرمی کے بعد یورپ بھر میں زندگی یکسر تبدیل ہو گئی ہے اور گرمیوں کے اس موسم میں ساحلی تفریح گاہیں لوگوں سے بھر گئی ہیں۔
اٹلی کے ساحلی علاقوں میں لوگوں کے ہجوم دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے چہرے اور آنکھوں کی چمک بتاتی ہے کہ وہ آزادانہ باہرنکل کر گھومنے پھرنے پر کتنےخوش ہیں۔
اٹلی میں 30 فی صد لوگ ویکسین لگوا چکے ہیں اور گزشتہ ایک ہفتے کے دوران کرونا وائرس کے نئے کیسز کی اوسط تعداد 700 سے کم رہی ہے۔ جب کہ اس موذی وبا سے ہلاکتوں کی شرح میں بھی نمایاں کمی آئی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ لوگ گھروں سے باہر نکل رہے ہیں اور کھیلوں کے میدانوں میں نوجوانوں کی سرگرمیاں اور بچوں کے قہقے پھر سے سنائی دینے لگے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
روم کے ایک قریبی قصبے وٹربو کے 19 سالہ رکارڈو کا کہنا ہے کہ بزرگ اب بھی ہمیں باہر نکلنے سے روکتے ہیں۔ ہم کئی مہینوں تک اپنے گھروں میں بند رہے ہیں۔ اب پابندیاں کچھ نرم ہوئی ہیں تو ہم پارٹیوں میں جانے سے خود کو کیسے باز رکھ سکتے ہیں۔
بزرگوں کی طرح ماہرین بھی لوگوں کے بڑی تعداد میں باہر نکلنے سے خدشات میں مبتلا ہیں۔ ان کے خدشات حقیقی ہیں کیونکہ یورپ کے کئی علاقوں میں کرونا وائرس کی جینیاتی طور پر تبدیل شدہ قسم ڈیلٹا ویرئینٹ پھیلنے کی اطلاعات ہیں۔ کرونا کی یہ قسم نہ صرف تیزی سے پھیلتی ہے بلکہ زیادہ ہلاکت خیز بھی ہے۔
جمعرات کے روز اٹلی کے وزیر اعظم ماریو ڈراگی نے کہا کہ مہینوں کی تنہائی اور ایک دوسرے سے الگ تھلگ رہنے کے بعد ہم اپنے سماجی رابطے دوبارہ بحال کر رہے ہیں۔ ہمارے کاروبار اور تعلیمی ادارے کھل رہے ہیں، لیکن ہمیں حقیقت پسندی سے کام لینا ہے کیونکہ ابھی عالمی وبا ختم نہیں ہوئی۔
اٹلی کے وزیر اعظم کے خدشات اس لحاظ سے درست معلوم ہوتے ہیں کہ برطانیہ میں بھی کرونا وائرس کا ڈیلٹا ویریئنٹ پھیلنے کی اطلاعات ہیں۔ وہاں نئے کیسز کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ صرف جمعرات کے روز لگ بھگ 28 ہزار نئے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں، جو جنوری کے بعد سے کسی ایک دن میں رپورٹ ہونے والے کیسز کی سب سے بڑی تعداد ہے۔
برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن جو 19 جولائی سے ملک کو دوبارہ کھولنے کا ارادہ رکھتے ہیں، اب مزید دو ہفتوں کے لیے کچھ پابندیاں برقرار رکھنے کا سوچ رہے ہیں۔
برطانیہ میں اب تک تقریباً ساڑھے چار کروڑ افراد ویکسین کی کم ازکم ایک خوراک حاصل کر چکے ہیں۔ جب کہ تین کروڑ 30 لاکھ سے زیادہ افراد کو دونوں خوراکیں مل چکی ہیں۔ جس سے ہلاکتوں کی تعداد میں نمایاں کمی آئی ہے، جو جنوری میں روانہ کی ایک ہزار کی اوسط سے گھٹ کر جمعرات کے روز صرف 22 پر آ گئی تھیں۔
تاہم کرونا کی نئی اور مہلک قسم کے برطانیہ میں پھیلنے کی خبروں سے کئی یورپی ملکوں کی تشویش میں اضافہ ہو گیا ہے۔ جرمنی کی چانسلر انگیلا مرکل نے یورپی یونین کے رکن ممالک سے کہا ہے کہ وہ برطانوی سیاحوں کا اپنے ملکوں میں داخلہ بند کر دیں، چاہے انہیں ویکسین کی مکمل خوراکیں لگ چکی ہوں۔ اس کی وجہ ڈیلٹا ویرئینٹ کا برطانیہ میں پھیلاؤ ہے۔
جرمن چانسلر کی طرف سے یہ مطالبہ ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب برطانیہ میں ویکسین لگوانے والوں کی شرح دیگر تمام یورپی ملکوں سے زیادہ ہے۔
عالمی ادارہ صحت نے بھی یورپ میں ڈیلٹاویرئینٹ کے پھیلنے کا انتباہ جاری کیا ہے۔ جمعرات کے روز عالمی ادارہ صحت کے یورپ کے لیے علاقائی ڈائریکٹر ہانز کلوگ نے ایک پریس کانفرنس میں خبردار کیا کہ اس خطے میں کرونا وائرس کے انفیکشنز کی تعداد میں کمی کا دور ختم ہونے والا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 53 ملکوں میں کووڈ-19 کے کیسز میں 10 ہفتوں سے جاری کمی کا دور ختم ہونے والا ہے۔ گزشتہ ہفتے ان کیسز کی تعداد میں 10 فی صد اضافہ ہوا تھا جس کی وجہ پابندیوں میں نرمی کے بعد انسانی رابطوں، سفر اور اجتماعات میں اضافہ ہے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ لاکھوں یورپی باشندے، جنہوں نے ویکسین نہیں لگوائی ہے وہ کرونا وائرس کے ڈیلٹا ویریئنٹ کے لیے آسان ہدف ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگست میں یورپ کے اندر ڈیلٹا ویریئنٹ نمایاں طور پر موجود ہو گا، جہاں کم ازکم 63 فی صد لوگوں کو ابھی تک کرونا ویکسین کی پہلی خوراک بھی نہیں ملی ہے۔