مالی سال 12-2011ء کے لیے پارلیمان میں پیش کیے جانے والے بجٹ میں دفاع کی مد میں مختص رقم میں گذشتہ سال کے مقابلے میں 11 فیصد سے زائد اضافہ ان دنوں پاکستان میں موضوع بحث بنا ہوا ہے ۔
منگل کو وفاقی دارالحکومت میں اسی مناسبت سے سول سوسائٹی کے زیر اہتمام ایک مذاکرے میں پرزور مطالبہ کیا گیا کہ دفاعی اخراجات پر پارلیمان میں بحث ہونی چاہیئے تاکہ ان کی شفافیت کو یقینی بنایا جاسکے۔
مذاکرے سے خطاب کرتے ہوئے سپریم کورٹ بار ایسوسی کی صدر عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ احتساب کا یہ عمل ممکن بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اراکین پارلیمان خود اپنے آپ کو بھی احتساب کے لیے پیش کریں ”میں صرف فوج کو قصور وار نہیں ٹھہراتی، ہمارے سیاستدان جو اتنے سارے ووٹ لے کرآتے ہیں اُن میں اتنی بھی اخلاقی جرات نہیں ہے کہ وہ کہہ سکیں کہ ہم اپنا بھی احتساب کروانے کے لیے تیار ہیں اور آپ بھی (فوج بھی احتساب ) کروائیں“۔
اُنھوں نے کہا کہ سول سوسائٹی کو ایک باقاعدہ مہم کے ذریعے سیاستدانوں کو پارلیمان میں دفاعی اخراجات پر بحث کرانے پر مجبور کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اُن کے توسط سے عوام کو بھی معلوم ہو سکے کہ دفاع کے لیے مختص پیسہ کہاں کہاں اور کیوں خرچ ہو رہا ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے گذشتہ ہفتے ایک نیوز کانفرنس میں دفاعی بجٹ میں اضافے کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ سلامتی کی موجودہ صورت حال کے تناظر میں ملکی دفاع کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن خود وفاقی وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے بلواسطہ طور پر اس امر پر زور دیا تھا کہ دفاعی بجٹ شفاف انداز میں استعمال ہونا چاہیئے اور کے تحت تقسیم کردہ رقوم کی نگرانی ہونی چاہئیے۔