عالمی معاشی فورم یعنی ورلڈ اکنامک فورم کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق سال 2022 میں پاکستان کی معیشت کو جن پانچ بڑے چیلنجز کا سامنا رہے گا ان میں قرضوں کے حجم سے پیدا شدہ صورتِ حال اور شدید موسمی حالات سرِ فہرست ہیں۔ پاکستان میں اشیا کی قیمتوں کے بڑھتے ہوئے رجحان کو تیسرے نمبر کا بڑا رسک قرار دیا گیا ہے۔
حکومتِ پاکستان کی جانب سے رواں مالی سال کے شروع میں جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق مارچ 2021 تک پاکستان پر قرضوں کا کُل حجم 38 ہزار ارب روپے سے تجاوز کر چکا ہے جس میں 12 ہزار ارب روپوں سے زائد کا بیرونی قرضہ بھی شامل ہے۔
حکومتِ پاکستان کے ذمے ایک تہائی قرض بیرونی جب کہ مقامی سطح پر لیا جانے والا دو تہائی قرض واجب الادا ہے۔ ماہرینِ معیشت کے مطابق بیرونی قرضوں کا تخمینہ اب اس سے بھی کہیں زیادہ بڑھ چکا ہے کیوں کہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں لگ بھگ 12 فی صد کی کمی رہی ہے۔
سابق وفاقی وزیرِ خزانہ اور سینئر معیشت دان ڈاکٹر حفیظ پاشا کے مطابق معاشی مشکلات اور قرضوں کا حجم اسی رفتار سے بڑھتا رہے گا جب تک پاکستان اپنا تجارتی خسارہ کم نہیں کرتا۔
وزیرِ اعظم عمران خان نے بھی منگل کو انٹر نیشنل چیمبرز سمٹ کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ کوئی بھی ملک پیاز ٹماٹر بیچ کر خوش حال نہیں ہوسکتا۔ ان کے بقول ملک کو ترقی دینے کے لیے برآمدات بڑھانا ہوں گی اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو حکومت کو ایک بار پھر آئی ایم ایف کے پاس جانا ہوگا۔
معیشت کو کس طرح ترقی دی جائے؟
ڈاکٹر حفیظ پاشا نے معیشت کی ترقی کے لیے طرزِ حکمرانی کو بہتر بنانے پر زور دیا ہے۔ ان کے بقول حکومت کو سوچ بچار کے بعد گورننس کو بہتر کرنا ہو گا بصورتِ دیگر اسی کشمکش سے باہر نکلنے کے بجائے پاکستان مزید مشکلات سے دو چار ہو سکتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ پاکستان کے پاس غیر ملکی زرِمبادلہ کے ذخائر مشکل سے 17 ارب ڈالرز کے قریب ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت آئی ایم ایف پروگرام حاصل کرنے کے لیے مجبور ہوئی اور انہی وجوہات کی بنا پر ورلڈ اکنامک فورم نے پاکستان کے معاشی مسائل کو خطرہ قرار دیا ہے۔
SEE ALSO: آئی ایم ایف سے قرض کی نئی قسط ملنے میں کیا رکاوٹیں حائل ہیں؟ڈاکٹر پاشا کے بقول پاکستان اس وقت قرضوں کی مد میں سالانہ تین ہزار ارب روپے سود کی ادائیگی میں دے رہا ہے جب کہ پینشن کے لیے تقریباً ایک ہزار ارب اور پھر ریاست کے ماتحت چلائے جانے والے کاروباری ادارے کمانے کے بجائے 850 ارب روپے کے خسارے میں ہیں۔ ایسے حالات گزشتہ 40 برس میں نہیں دیکھے۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ معاشی حالات کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ حکومت کو عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ دو تین سال کا نیا پروگرام بنانا پڑے گا۔
قیمتوں کا بڑھتا ہوا رجحان ایک اور بڑا خطرہ
ورلڈ اکنامک فورم نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی کہا ہے کہ پاکستان کو اس وقت بڑھتی ہوئی قیمتوں میں عدم استحکام سے متعلق خطرات کا بھی سامنا ہے۔ ملک میں مہنگائی کی شرح بارہ فی صد سے زائد ہو چکی ہے۔
ادارہ شماریات پاکستان کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق دسمبر میں ملک میں ایندھن کی قیمتیں، بجلی، ٹرانسپورٹ، گھروں کا کرایہ، اور بعض غذائی اشیا کی قیمتیں بڑھنے کی شرح زیادہ رہی۔ دیہی علاقوں کی نسبت شہری علاقوں میں یہ شرح کہیں زیادہ ریکارڈ کی گئی۔
Your browser doesn’t support HTML5
دوسری جانب وزارتِ خزانہ کے ترجمان مزمل اسلم مہنگائی کو عالمی مسئلہ قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کرونا وبا کے بعد عالمی سطح پر اجناس کی قیمتوں اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا اثر پاکستان پر بھی پڑا ہے۔
دیگر معاشی ماہرین کے خیال میں پاکستان میں مہنگائی کا زیادہ اثر پڑنے کی بڑی وجہ ملکی کرنسی کی قدر میں زبردست کمی، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی ہدایت پر پیٹرولیم مصنوعات پر اضافی ڈیوٹی، زرعی و معاشی اصلاحات کے فقدان، سپلائی چین میں موجود سقم، بہتر طرزِ حکمرانی نہ ہونا اور ذخیرہ اندوزی بھی ہے۔
ماحولیاتی خطرات سے کیسے نمٹا جائے؟
عالمی معاشی فورم کی رپورٹ نے پاکستان کو درپیش ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے شدید موسمی اثرات کو دوسرا اہم ترین خطرہ قرار دیا ہے۔
پاکستان گزشتہ دو دہائیوں سے عالمی موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے ملکوں کی فہرست میں مسلسل پہلے دس ممالک میں شامل ہے۔
اقوامِ متحدہ کے ادارے یو این ڈی پی کی بھی ایک رپورٹ کے مطابق بڑھتے ہوئے عالمی درجہ حرارت کی وجہ سے ملک کے شمالی علاقوں میں واقع پہاڑی سلسلوں میں گلیشئیرز تیزی سے پگھل رہے ہیں جن کی وجہ سے خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان میں اس وقت لگ بھگ تین ہزار 44 گلیشئیرز جھیلیں بن چکی ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
گلیشیئرز کے جھیلوں میں تبدیل ہونے سے سیلاب کے خطرات بڑھ جاتے ہیں جس سے قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع، املاک اور مال مویشیوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
یو این ڈی پی کے مطابق لگ بھگ 71 لاکھ افراد موسمیاتی خطرات کی زد میں ہیں جن میں سے تقریباً ایک چوتھائی افراد وہ ہیں جو خطِ غربت سے نیچے کی زندگی گزار رہے ہیں۔
'ترقی یافتہ ممالک کو آگے آنا ہوگا'
اسی طرح 'گلوبل کلائمیٹ امپیکٹ سینٹر پاکستان' کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں 75 سالوں کے دوران اوسط درجہ حرارت ایک ڈگری بڑھ چکا ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ماحول کے لیے نقصان دہ گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں اضافہ، 12 ہزار ہیکٹر سے زائد رقبے پر جنگلات کا صفایا اور کنکریٹ سے تعمیرات کے باعث اربن فلڈنگ کے واقعات میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
جامعہ کراچی کے شعبہ ماحولیاتی مطالعے کے پروفیسر ڈاکٹر معظم خان کا کہنا ہے کہ پاکستان عالمی موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ نہیں لیکن اس سے شدید متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اگرچہ پاکستان کا دنیا بھر میں زہریلی گیس کے اخراج میں حصہ ایک فی صد سے بھی کم ہے لیکن وہ موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثرین ہونے والے دس ابتدائی ملکوں کی فہرست میں شامل ہے۔
ڈاکٹر معظم کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے ترقی یافتہ ممالک کو آگے آنا ہوگا اور ترقی پزیر و پسماندہ ممالک کو ٹیکنالوجی کی منتقلی اور مالی معاونت کرنا ہوگی۔
ان کے خیال میں موسمیاتی تبدیلی سے متعلق بڑے پیمانے پر شعور اجاگر کرنے کی اشد ضرورت ہے کیوں کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو زائل کرنے کے لیے صرف حکومتیں ہی نہیں بلکہ ہر شخص کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔