سیاہ فام امریکی جارج فلائیڈ کی پولیس تحویل میں ہلاکت کے بعد محکمۂ پولیس میں اصلاحات اور پولیس کے عوام کے ساتھ رویے کو بہتر کرنے کے لیے پولیس اصلاحات کے مطالبات بھی کیے جا رہے ہیں۔
امریکہ میں حکمراں جماعت ری پبلکن پارٹی اور حزبِ اختلاف کی جماعت ڈیمو کریٹک پارٹی نے پولیس اصلاحات کے لیے اپنی اپنی تجاویز کانگریس میں پیش کر دی ہیں۔
البتہ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ امریکہ کے معروضی سیاسی حالات اور صدارتی الیکشن کا سال ہونے کے باعث پولیس اصلاحات کا معاملہ نہایت اہمیت کا حامل ہے۔
گزشتہ ماہ ریاست منی سوٹا کے شہر منی ایپلس کے ایک سُپر اسٹور کے باہر 20 ڈالر کا مبینہ جعلی نوٹ استعمال کرنے کی پاداش میں پولیس اہلکاروں نے جارج فلائیڈ کو حراست میں لیا تھا۔
ایک پولیس اہل کار کی جانب سے فلائیڈ کی گردن پر گھٹنا رکھنے کی ویڈیو وائرل ہو گئی تھی۔ جارج فلائیڈ اس دوران بے ہوش گئے تھے جس پر اُنہیں اسپتال منتقل کیا گیا جہاں سے بعدازاں اُن کی ہلاکت کی خبر آئی۔
سیاہ فام جارج فلائیڈ کی ہلاکت کے بعد امریکہ سمیت دنیا کے کئی ملکوں میں احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے تھے جب کہ امریکہ میں اس کے بعد سے محکمۂ پولیس میں اصلاحات کا مطالبہ زور پکڑ گیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس معاملے پر امریکہ میں جاری بحث کے دوران اصلاحات کی نوعیت اور دائرہ کار کے حوالے سے بھی مختلف آرا سامنے آ رہی ہیں۔
کچھ ماہرین اور افریقی امریکن رہنماؤں کے مطابق نسلی امتیاز کے خاتمے کے لیے پولیس اصلاحات اب ناگزیر ہو چکی ہیں۔
دوسری طرف کچھ سیاسی رہنما کہتے ہیں کہ پولیس کی تربیت اور پُر تشدد رویہ اپنانے والے افسروں کے احتساب سے محکمۂ پولیس کی اصلاح کی جا سکتی ہے۔
سیاسی اختلافات سے قطع نظر زیادہ تر ماہرین اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ پولیس کے موجودہ نظام میں اصلاحات لانا ضروری ہے تاکہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اور عوام میں اعتماد کی فضا قائم کی جا سکے۔
مظاہرین کے مطالبات کیا ہیں؟
'بلیک لائیوز میٹر' تحریک اور شہری حقوق کی تنظیموں کے زیرِ سایہ ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں پولیس بجٹ کو یکسر ختم کرنے سمیت دیگر انتظامی اقدامات کے مطالبات سامنے آ رہے ہیں۔
مظاہرین کی جانب سے مندرجہ ذیل مطالبات کیے جا رہے ہیں:
- پولیس کے بجٹ میں نمایاں کمی
- پولیس بجٹ میں کٹوتی کی رقم کو صحت، تعلیم اور کم ترقی یافتہ طبقات پر خرچ کیا جائے۔
- قانون سازی کے ذریعے محکمۂ پولیس کی ازسر نو تشکیل کی جائے تاکہ شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔
- چھ سال قبل مائیکل براؤن جونیئر کی پولیس تحویل میں ہلاکت کے بعد تجویز کی جانے والی اصلاحات پر عمل درآمد
- پولیس کی تربیت سمیت ایسے اقدامات اٹھائے جائیں کہ محکمۂ پولیس ایک فوج کی طرح نہیں بلکہ شہریوں کے ساتھ مل کر امن و امان قائم کرنے اور شہریوں کی زندگی کو بچانے کے لیے ایک ادارے کی حیثیت سے کام کرے۔
- شفافیت اور احتساب کے لیے 'باڈی کیمرہ' کے استعمال کو بہتر بنایا جائے۔
- مقامی سطح پر پولیس کے فرائض انجام دینے کے طریقے کو بہتر بنانے کے لیے شہری بورڈ اور کمیٹیوں کو اختیارات دیے جائیں۔
- پولیس یونین کے معاہدوں اور پولیس کے خلاف شہریوں کی شکایات کا ریکارڈ منظر عام پر لایا جائے۔
-
Your browser doesn’t support HTML5
پولیس اصلاحات سے متعلق صدارتی حکم نامے میں کیا ہے؟
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پولیس اصلاحات کے حوالے سے چند روز قبل ایک صدارتی حکم نامہ بھی جاری کیا تھا۔
اس حکم نامے کے مطابق امریکہ کے اٹارنی جنرل صرف ان قانون نافذ کرنے والے محکموں کو مالی امداد فراہم کریں گے جن کے پاس طاقت کے استعمال اور حالات پر قابو پانے جیسے معاملات پر بہترین کارکردگی کے سرٹیفیکیٹ ہوں گے۔
امریکی صدر کے اس اصلاحاتی حکم نامے کے تحت پولیس افسران کو طاقت کے استعمال کے معیار اور کشیدہ صورتِ حال کو طاقت استعمال کیے بغیر سنبھالنے کی تربیت دی جائے گی۔
پولیس اصلاحات کے حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ پولیس اہل کاروں کے سماجی رضاکاروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کا نظام بھی ترتیب دیا جائے گا۔
صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ جرائم کم کرنا اور پولیس کی استعداد میں اضافہ کرنا دو متضاد باتیں نہیں۔ البتہ محفوظ معاشرے کے لیے محفوظ پولیسنگ ضروری ہے۔
صدر کے بقول ایک ایسا نظام بنایا جائے گا جس میں پولیس اور سماجی رضاکار ساتھ مل کر کام کریں گے۔ بے گھر افراد، ذہنی امراض میں مبتلا لوگوں اور اسی طرح کے دیگر پیچیدہ معاملات میں پولیس افسران کے ساتھ سماجی رضاکاروں کو بھی موقع پر بھیجا جائے گا تاکہ وہ صورتِ حال کو سنبھالنے میں پولیس افسران کی مدد کر سکیں۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کا یہ حکم نامہ اصلاحات کو بیان تو کرتا ہے لیکن اس پر عمل درآمد میں بہت سی پیچیدگیاں ہیں۔
امریکی ایوانِ نمائندگان کی اسپیکر نینسی پلوسی نے اس حکم نامے کو ناکافی قرار دیا تھا۔ اُن کے بقول یہ پولیس کے ظالمانہ رویے اور نسل پرستی کی بنیاد پر ناانصافی اور سیاہ فام افراد کے خلاف نسلی امتیاز کی روک تھام کے ضروری اقدامات کی ضمانت نہیں دیتا۔
Your browser doesn’t support HTML5
ہیوسٹن میں مقیم سیاسی اُمور کے ماہر ایم جے خان کہتے ہیں کہ پولیس اصلاحات الیکشن کے سال ایک بڑا حساس مسئلہ بن گیا ہے۔
ان کے بقول ایسا دکھائی دیتا ہے کے صدر ٹرمپ نے ایک متوازن سیاسی اقدام کے طور پر ان اصلاحات کا اعلان کیا ہے۔ کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس سال ری پبلکن پارٹی پر پولیس اصلاحات کے معاملے پر سیاسی دباؤ ڈالا جائے گا۔
کانگریس میں قانون سازی
امریکی کانگریس میں پولیس اصلاحات پر دو الگ الگ بل ایوان نمائندگان اور سینیٹ میں پیش کیے گئے ہیں۔
ایوانِ نمائندگان میں اکثریتی جماعت ڈیمو کریٹک پارٹی نے ایک بل پیش کیا ہے جس میں پولیس افسروں کی جانب سے ملزم کی گردن پر دباؤ ڈالنے کی تیکنیک "چوک ہولڈ" کو یکسر ختم کرنے کی تجویز شامل ہے۔
اس بل میں پولیس افسروں کو مقدمات کے خلاف قانونی طور پر حاصل استثنٰی کو محدود کرنے کی سفارشات بھی شامل ہیں۔ اس بل میں مزید کہا گیا ہے کہ منشیات کے وفاقی جرم کے زمرے میں ٓانے والے معاملات پر پولیس کو بغیر دستک دیے گھروں میں گھسنے کی اجازت ختم کی جائے۔
سینیٹ میں اکثریتی ری پبلکن پارٹی ایسی قانون سازی کرنا چاہتی ہے جس کے تحت "چوک ہولڈ" کی تیکنیک صرف غیر معمولی حالات میں استعمال کرنے کی اجازت ہو گی۔
ری پبلکن پارٹی کے بل میں کہا گیا ہے کہ جن ریاستوں میں پولیس غیر معمولی حالات کے علاوہ "چوک ہولڈ" کا استعمال ممنوع قرار نہیں دے گی اس کی وفاقی امداد کم کر دی جائے۔
جہاں تک بغیر دستک دیے منشیات کے کیس میں کارروائیاں کرنے کا تعلق ہے تو سینیٹ بل کے تحت مقامی پولیس کے لیے ضروری ہوگا کہ وہ وفاقی محکمہ انصاف کو اس سلسلے میں رپورٹ کریں۔
ایفرو امریکن برادری کی شکایات اور مظاہرین کے مطالبات کے تناظر میں "چوک ہولڈ" یا گلا دبوچنے اور پولیس کو مقدمات کے خلاف قانونی استثنٰی ختم کرنے کے مطالبات سرِ فہرست ہیں۔
البتہ بعض تجاویز پر وائٹ ہاؤس نے ردعمل دیا تھا کہ اس سے محکمۂ پولیس کی افادیت کم ہو جائے گی جو لامحالہ امن و امان کے قیام میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔
مظاہرین اور شہری اور انسانی حقوق کے علم بردار کہتے ہیں کہ "چوک ہولڈ" تیکنیک غیر انسانی ہے کیوں کہ یہ انسان کی سانس بند کر نے سے اس کی موت کی وجہ بن سکتی ہے۔
کانگریس کے دو ایوانوں میں جب ایک ہی معاملے پر دو مختلف بل سامنے آئیں تو امریکی سیاسی تاریخ رہی ہے کہ کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر اتفاق رائے کی کوشش کی جاتی ہے۔
اس ضمن میں ری پبلکن اور ڈیمو کریٹک پارٹی کے رہنما مذاکرات کے ذریعے ایک مشترکہ مسودہ کانگریس میں پیش کرتے ہیں جسے بعد ازاں منظور کرایا جاتا ہے۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ملک گیر مظاہروں اور سیاہ فام شہریوں کی پولیس کے تحویل میں ہلاکت کے واقعات کے تناظر میں پولیس اصلاحات دونوں پارٹیوں کے لیے ایک اہم سیاسی مسئلہ بن گیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ 2020 صدارتی انتخابات کا سال ہے۔ لہذٰا کرونا بحران اور نسلی امتیاز کے معاملات اس الیکشن سے قبل موضوع بحث رہیں گے۔
ایم جے خان کہتے ہیں کہ پولیس اصلاحات کا مسئلہ دونوں پارٹیوں کے لیے اہمیت رکھتا ہے۔ اُن کے بقول چوں کہ ایفرو امریکن برادری کا جھکاؤ گزشتہ کئی دہائیوں سے ڈیمو کریٹک پارٹی کی طرف رہا ہے لہذٰا اس معاملے پر ری پبلکن پارٹی بھی اُن کا اعتماد حاصل کرنے کی کوشش کرے گی۔
Your browser doesn’t support HTML5
ماہرین کہتے ہیں کہ ری پبلکن پارٹی کے لیے پولیس اصلاحات کے معاملے پر قانون سازی ایک نازک مرحلہ ہو گا۔ کیوں کہ اُن کے بقول بہت سے سفید فام ووٹرز پولیس کے موجودہ نظام کو جرائم کی روک تھام کے لیے موزوں قرار دیتے ہیں۔
سینیٹ میں ری پبلکن پارٹی کے رہنما سینیٹر میچ میکونل کہتے ہیں کہ پولیس اصلاحات کے معاملے پر قانون سازی جماعتی وابستگی سے بالاتر ہو کر کی جائے گی۔
دوسری طرف سینیٹ میں ڈیمو کریٹک پارٹی کے رہنما سینیٹر چک شومر نے وائٹ ہاؤس کے منصوبے پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ڈیمو کریٹ ممبران اپنی تجاویز پر عمل درآمد کی پوری کوشش کریں گے۔
البتہ دونوں جماعتوں نے اتفاق کیا ہے کہ ایک ایسا کمیشن تشکیل دیا جائے جو امریکہ میں موجود اقلیتی برادری میں جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح کی وجوہات پر مبنی جامع رپورٹ تیار کرے۔