افغانستان میں حکام نے جمعے کے روز بتایا ہے کہ بھارت سے تعلق رکھنے والے بین الاقوامی ایوارڈ یافتہ صحافی، دانش صدیقی ملک کے جنوبی صوبہ قندھار میں حکومتی فورسز اور طالبان جنگجوؤں کے درمیان لڑائی کے دوران فائرنگ کے تبادلے کے دوران گولی لگنے سے ہلاک ہو گئے ہیں۔
وہ افغان افواج اور طالبان کے درمیان ملک کے سپن بولدک ضلع میں جاری لڑائی کی کوریج کرنے کے لیے افغان فورسز کے ساتھ کام کر رہے تھے۔
یاد رہے کہ افغانستان کی جانب سے پاکستان کی طرف سرحد پار جانے کے بڑے مرکز سپن بولدک پر اس ہفتے کے اوائل میں طالبان نے قبضے کا دعوی کیا تھا جسے چھڑوانے کے لیے دونوں فریقین میں لڑائی جاری ہے۔
SEE ALSO: صحافی عزیز میمن قتل کیس میں نئی 'جے آئی ٹی' بنانے کی سفارشخبر رساں ادارے رائٹرز کے فوٹو جرنلسٹ دانش صدیقی کو صحافتی دنیا کا سب سے ممتاز ایوارڈ پلٹزر پرائز مل چکا ہے۔ یہ ایوارڈ انہیں 2018 میں روہنگیا مہاجرین کی مشکلات کی فوٹو کوریج پر دیا گیا تھا ۔
رائیٹرز کے صدر مائیکل فرائڈن برگ اور ایڈیٹر ان چیف الیساندرہ گولانی نے ایک بیان میں کہا کہ وہ مزید معلومات کے لیے فوری کوشش کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں علاقے میں حکام سے رابطے میں ہیں۔
انہوں نے بیان میں کہا کہ ’’دانش ایک بہترین صحافی، جاں نثار شوہر اور والد، اور سب سے پیار کرنے والا کولیگ تھا۔ اس مشکل وقت میں ہم اس کے خاندان کے ساتھ ہیں۔‘‘
دانش صدیقی نے رائیٹرز کو بتایا تھا کہ جمعے کو علی الصبح جھڑپوں کی رپورٹنگ کرتے ہوئے ایک بم کا ٹکڑا ان کے بازو پر لگا تھا، انہیں ابتدائی طبی امداد دی گئی تھی کہ طالبان جنگجو نے سپن بولدک میں لڑائی کے بعد پیچھے ہٹنا شروع کیا۔
ایک افغان کمانڈر نے رائیٹرز کو بتایا کہ صدیقی دکانداروں سے گفتگو کر رہے تھے جب طالبان نے دوبارہ سے حملہ کیا۔
دانش صدیقی کا خبر رساں ادارہ آزاد ذرائع سے اس دوبارہ چھڑ جانےوالی لڑائی کی تفصیلات کی تصدیق نہیں کر سکا، جس کے بارے میں تفصیلات افغان فوج کے ایک افسر سے حاصل ہوئیں جو افغان وزارت دفاع کی جانب سے کسی بیان کے جاری کرنے سے قبل اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتا۔
Your browser doesn’t support HTML5
رائٹرز کے ساتھ 2010 سے کام کرتے ہوئے دانش صدیقی نے افغانستان، عراق، روہنگیا بحران، ہانگ کانگ کے احتجاج اور نیپال میں زلزلے کے دوران کوریج کی تھی۔
دانش صدیقی کا تعلق بھارت کے شہر ممبئی سے تھا اور انہیں روہنگیا مہاجرین کے بحران پر فیچر فوٹوگرافی کے ضمن میں 2018 میں پلٹزر پرائز سے نوازا گیا تھا۔
حالیہ دنوں میں انہوں نے بھارت میں کرونا بحران کے دوران مسلسل صحافتی ذمہ داریاں ادا کیں۔
دانش صدیقی کی ہلاکت پر تبصرہ کرتے ہوئے افغانستان کے لئے اقوام متحدہ کے امدادی مشن نے ٹوئٹ کرتے ہوئے لکھا کہ افغانستان میں کام کرنے والا میڈیا اور صحافت اس وقت خطرے میں ہے۔ مشن نے دانش صدیقی کے اہلخانہ سے اظہار افسوس کیا اور مزید لکھا کہ ان کی ہلاکت افغانستان میں صحافیوں کے لیے بڑھنے خطرات کی نشانی ہے۔ مشن نے حکام سے مطالبہ کیا کہ ان کی اور دوسرے صحافیوں کی ہلاکتوں کی مکمل تحقیق کی جانی چاہئے۔
Media working in #Afghanistan & journalism itself in the country is under increasing threat. Our deep condolences to family & friends of @dansiddiqi. A painful reminder of mounting dangers faced by media in Afghanistan. Authorities must investigate this & all killing of reporters https://t.co/GGMM7pIzXr
— UNAMA News (@UNAMAnews) July 16, 2021
سوشل میڈیا پر صارفین دانش صدیقی کو زبردست خراج عقیدت پیش کررہے ہیں۔
صحافی شالینی نائیر نے ان کی کھینچی گئی تصاویر شیئر کرتے ہوئے کہا کہ دانش صدیقی کی روہنگیا مہاجرین، دہلی فسادات اور بھارت کے کرونا بحران کی دل دہلا دینے والی تصاویر ہمیشہ ہمارے ذہنوں میں تازہ رہیں گی۔
Danish Siddiqui’s searing images on the Rohingya refugees, Delhi pogrom, & India’s Covid crisis will forever be imprinted in our minds. pic.twitter.com/SMwgmiLNTG
— Shalini (@ShaliniNair13) July 16, 2021
ایک صارف منڈو نے لکھا کہ پچھلے کچھ برسوں میں بھارت سے نمودار ہونے والی انتہائی دلخراش تصاویر کے پیچھے دانش صدیقی تھے۔ وہ بھیانک حقیقت کا آشکار کرنے سے گھبراتے نہیں تھے۔ ان کی بے مثال بہادری انہیں افغانستان کے جنگی میدان تک لے گئی۔ ان کی ہلاکت کی خبر بہت دردناک ہے۔
Danish Siddiqui was the man behind some of the most heart wrenching photos we saw in the last few years in India. Unafraid to show the dismal reality. Unparalleled courage to go into an active warzone in Afghanistan.The news is utterly heartbreaking.Rest in power, Danish. pic.twitter.com/TPAqeCQR93
— Mando (@MandoMunda) July 16, 2021
ایک اور صارف فاطمہ خان نے بھی ان کے کام کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ انسانی المیے سے لے کر خطرناک تشدد تک، دانش صدیقی نے پچھلے عشرے میں بے مثال اور وقت کو تبدیل کردینے والی تصاویر کھینچی تھیں۔
From humanitarian crises to life-threatening violence, Danish Siddiqui has captured some of the most iconic, defining photographs of the last decade pic.twitter.com/a4pS9hnj7E
— Fatima Khan (@khanthefatima) July 16, 2021
تیرہ جولائی کو ٹویٹر پر ٹویٹس کے ایک سلسلے میں انہوں نے متعدد تصاویر میں جہاں جنگ کے حالات کا تذکرہ کیا وہیں اپنی صحافتی ذمہ داریوں کی مشکلات کا اظہار بھی کیا۔
THREAD.Afghan Special Forces, the elite fighters are on various frontlines across the country. I tagged along with these young men for some missions. Here is what happened in Kandahar today while they were on a rescue mission after spending the whole night on a combat mission. pic.twitter.com/HMTbOOtDqN
— Danish Siddiqui (@dansiddiqui) July 13, 2021
ایک ٹویٹ میں انہوں نے لکھا کہ جس فوجی گاڑی میں وہ سوار تھے، اس پر بھی کچھ گولے آ کر لگے۔ انہوں نے کہا کہ وہ ایک راکٹ لگنے کے منظر کو محفوظ رکھنے میں کامیاب رہے اور خود بھی محفوظ رہے۔
The Humvee in which I was travelling with other special forces was also targeted by at least 3 RPG rounds and other weapons. I was lucky to be safe and capture the visual of one of the rockets hitting the armour plate overhead. pic.twitter.com/wipJmmtupp
— Danish Siddiqui (@dansiddiqui) July 13, 2021
ایک ٹویٹ میں انہوں نے لکھا کہ 15 گھنٹے کے مسلسل مشن کے بعد انہیں 15 منٹ ہی آرام کے میسر آئے۔
Got a 15 minute break during almost 15 hours of back to back missions. pic.twitter.com/Y33vJYIUlr
— Danish Siddiqui (@dansiddiqui) July 13, 2021
مغربی بنگال سے زی نیوز کی رپورٹر پوجا مہتا نے لکھا کہ کولکتہ کے فوٹو جرنلسٹس نے دانش صدیقی کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے گاندھی جی کے مجسمے کے سامنے ان کی تصاویر پر شمعیں روشن کیں۔
Kolkata photojournalists express solidarity with #DanishSiddiqui at the Gandhi statue today.@Ashok_photoInd pic.twitter.com/4MNeF9CO7s
— Pooja Mehta (@pooja_news) July 16, 2021