"وہ ایک چھوٹے سے سیل میں رہتے ہیں جہاں وہ چل پھر سکتے ہیں اور وہیں ہلکی پھلکی ورزش بھی کر لیتے ہیں۔ قرآن کے علاوہ وہ کوئی کتاب یا اخبار پاس نہیں رکھ سکتے۔ اہلِ خانہ سے ملاقات میں انہیں اپنی مادری زبان پشتو میں بات کرنے کی بھی اجازت نہیں۔"
امریکہ میں ہیرو اور پاکستان میں 'غدار' تصور ہونے والے ڈاکٹر شکیل آفریدی کے روز و شب کی یہ تفصیل خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' نے ان کے اہلِ خانہ اور وکیل کی مدد سے حاصل کی ہیں کیوں کہ ان کے علاوہ شکیل آفریدی تک کسی اور کو رسائی حاصل نہیں۔
دو مئی 2011 کو امریکہ کی جانب سے کیے گئے ایک آپریشن میں دنیا کے مطلوب ترین شخص اسامہ بن لادن کی ہلاکت کو ایک دہائی مکمل ہوچکی ہے۔ بن لادن کی تلاش کی سنسنی خیز داستان کا ایک مرکزی کردار شکیل آفریدی بھی ہیں۔
پاکستان کے سابق قبائلی علاقے سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر شکیل آفریدی کو ایبٹ آباد میں القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی تلاش کے لیے امریکی خفیہ ادارے 'سی آئی اے' کے آپریشن کا اہم کردار سمجھا جاتا ہے۔
اے ایف پی کے مطابق امریکہ کو ایبٹ آباد میں واقع کمپاؤنڈ میں کارروائی سے قبل اس بات کا حتمی ثبوت درکار تھا کہ وہاں واقعی بن لادن موجود ہے یا نہیں۔ اس کے لیے ڈاکٹر آفریدی نے کمپاؤنڈ سے ڈی این اے کے نمونے حاصل کرنے کے لیے پولیو ویکسی نیشن کی مہم چلائی تھی۔
اسامہ کی تلاش میں شکیل آفریدی کتنا مددگار ثابت ہوئے تھے، یہ تاحال واضح نہیں۔ لیکن انہیں بن لادن کی قیام گاہ پر ہونے والے امریکی آپریشن کے چند ہفتوں بعد ہی پاکستانی حکام نے گرفتار کر لیا تھا۔
ایبٹ آباد آپریشن سے شکیل آفریدی کا کوئی تعلق ابھی تک ثابت نہیں ہوسکا ہے۔ تاہم پاکستان کی ایک قبائلی عدالت نے انہیں نو آبادیاتی دور کے ایک قانون کے تحت شورش پسندوں کو رقم فراہم کرنے کے ایک مبہم الزام میں 33 سال قید کی سزا سنادی تھی۔
امریکی حکومت کی جانب سے گاہے بہ گاہے شکیل آفریدی کی قید پر احتجاج کیا جاتا رہا ہے۔ اس عرصے کے دوران پاکستان کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے ذریعے ان کی امریکہ حوالگی کی تجویز بھی گردش کرتی رہی ہے۔ لیکن تاحال ان کی رہائی کی کوئی سبیل پیدا نہیں ہو سکی ہے۔
’ہفتے میں دو بار شیو کی اجازت ہے‘
ڈاکٹر شکیل آفریدی کو پاکستان کے صوبے پنجاب کے شہر ساہیوال کی جیل میں قیدِ تنہائی میں رکھا گیا ہے۔
ان کے بھائی جمیل آفریدی کے مطابق وہ ایک چھوٹے سے سیل میں رہتے ہیں جہاں وہ چل پھر سکتے ہیں اور وہیں ہلکی پھلکی ورزش بھی کرلیتے ہیں۔
جمیل آفریدی نے اے ایف پی کو بتایا کہ شکیل آفریدی کو قرآن کے سوا کوئی کتاب یا اخبار پاس رکھنے کی اجازت نہیں۔
جمیل آفریدی کا کہنا تھا کہ ان کے بھائی کو محافظ کی موجودگی میں ہفتے میں دو بار شیو کرنے کی اجازت ہے اور انہیں جیل میں دیگر قیدیوں سے ملنے ملانے کی بھی اجازت نہیں۔
اہلِ خانہ کو مہینے میں صرف دو بار ان سے ملاقات کی اجازت ہے۔ اس ملاقات میں بھی بیچ میں آہنی سلاخیں حائل رہتی ہیں اور اس ملاقات کے دوران بھی ڈاکٹر آفریدی اور ان کے اہلِ خانہ پر اپنی مادری زبان پشتو بولنے پر پابندی ہوتی ہے۔
شکیل آفریدی کے بھائی کا کہنا ہے کہ جیل حکام کی جانب سے ہمیں بتا دیا گیا تھا کہ ملاقات میں ہم ان سے سیاست اور جیل کے اندرونی حالات پر بھی بات نہیں کرسکتے۔
ڈاکٹر آفریدی کے اہلِ خانہ کے بقول وہ اس قیدِ تنہائی میں اپنا زیادہ تر وقت کوٹھڑی میں ٹہلتے اور نمازیں پڑھتے گزارتے ہیں۔ انہیں موبائل استعمال کرنے کی اجازت نہیں اور نہ ہی کوئی اخبار یا کتاب پڑھنے کی۔
’ڈاکٹر آفریدی نے سب سے بھاری قیمت ادا کی‘
واشنگٹن ڈی سی میں واقع تھنک ٹینک 'ولسن سینٹر' کے ڈپٹی ڈائریکٹر برائے جنوبی ایشیا مائیکل کوگلمین نے ’اے ایف پی‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات تو واضح ہے کہ شکیل آفریدی نے سب سے بھاری قیمت ادا کی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ افغانستان سے انخلا اور پاکستان کے ساتھ امریکہ کے تعلقات میں بڑھتی ہوئی سرد مہری سے اندازہ ہوتا ہے کہ شکیل آفریدی کی رہائی کا معاملہ بھی اب پہلے جیسا گرم نہیں رہا۔
Your browser doesn’t support HTML5
خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں جہاں ایبٹ آباد آپریشن نے پہلے سے موجود امریکہ مخالف جذبات کو عروج پر پہنچا دیا تھا، چند ہی لوگ ہوں گے جنہیں شکیل آفریدی سے ہمدردی ہے۔
پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسی 'آئی ایس آئی' کے سابق سربراہ اسد درانی کے بقول جب کوئی کسی دوسرے ملک کی انٹیلی جنس کے لیے کام کرے تو اسے ناقابلِ معافی خطا تصور کیا جاتا ہے۔
ان کے خیال میں شکیل آفریدی کی حراست نے انہیں بقول ان کے غیض و غضب کا شکار کسی شخص یا ہجوم کا نشانہ بننے سے بچا لیا ہے۔
'اے ایف پی' کے مطابق اب جب امریکہ افغانستان سے نکلنے کے لیے تیاری کر رہا ہے اور اسامہ بن لادن کے خلاف ہونے والی کارروائی کی یادیں معدوم ہو رہی ہیں، پاکستان میں شکیل آفریدی کے کردار سے پیدا ہونے والی صورتِ حال کا تسلسل برقرار ہے۔
مبینہ طور پر بن لادن کا ڈی این اے حاصل کرنے کے لیے چلائی جانے والی ڈاکٹر آفریدی کی ویکسی نیشن مہم کی وجہ سے پاکستان میں ویکسین پر عوام کے اعتماد میں تشویش ناک حد تک کمی واقع ہوئی۔
پاکستان میں اب بھی کئی خاندان اپنی بچوں کو پولیو جیسی بیماری سے بچاؤ کی ویکسین دلوانے کے لیے تیار نہیں اور گزشتہ ایک دہائی میں شورش پسند کئی ویکسین ٹیموں پر حملے کرچکے ہیں جن میں درجنوں ہیلتھ ورکروں کی جانیں گئی ہیں۔