ڈان اخبار کی تقسیم میں مبینہ 'رکاوٹیں' جاری

فائل

اخبار کی انتظامیہ نے دعویٰ کیا ہے کہ ’’اخبار کے ہاکرز اور ایجنٹس کو اخبار کی تقسیم سے روکنے کے لیے مسلسل ہراساں کیا اور دھمکایا جا رہا ہے‘‘

انسانی حقوق کی تنظیموں اور سماجی و سیاسی حلقوں کی طرف سے ملک کے متعدد شہروں میں پاکستان کے موقر انگریزی اخبار ’ڈان‘ کی تقسیم کی راہ میں مبینہ رکاوٹوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ایسے اقدامات کو روکنے کے لیے مناسب کارروائی کرے۔

’ڈان‘ کی انتظامیہ کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق گزشتہ ماہ سے پاکستان بھر میں چند مخصوص شہروں میں روزانہ کی بنیاد پر اخبار کی تقسیم میں خلل ڈالنے کے واقعات دیکھے جا رہے ہیں۔

اخبار کی انتظامیہ نے دعویٰ کیا ہے کہ ’’اخبار کے ہاکرز اور ایجنٹس کو اخبار کی تقسیم سے روکنے کے لیے مسلسل ہراساں کیا اور دھمکایا جا رہا ہے‘‘۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ گزشتہ کئی ماہ سے ملک کے متعد شہروں میں واقع کنٹونمنٹ کے علاقوں میں اخبار تقسیم کرنے والی گاڑیوں کو داخل ہونے سے مبینہ طور پر روک دیا گیا ہے، جبکہ گزشتہ ماہ سے صوبہ سندھ، پنجاب اور بلوچستان کے کئی شہروں میں متعین اہلکار ان علاقوں میں مقیم عام شہریوں کو بھی اخبار کی تقسیم کرنے سے روک رہے ہیں۔

اخبار کے مطابق، ایسی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں کہ یہ اہلکار سرکاری اہلکار اخبار کے ہاکرز اور اور ایجنٹس کو طلب کرکے انہیں اخبار تقسیم نا کرنے کی تنبیہ کی بصورت دیگر انہیں سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

ڈان اخبار کی انتظامیہ نے نگران وزیر اعظم ناصر الملک، چیف جسٹس میاں ثاقب نثار اور فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے اخبار کو درپیش صورت حال کا نوٹس لینے کی درخواست کی ہے۔

انسانی حقوق کے موقر ادارے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان 'ایچ آر سی پی' کے سربراہ مہدی حسن نے جمعرات کو ’وائس آف امریکہ‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ڈان کو تقسیم کے معاملے کی تحقیقات کے لیے 'ایچ آر سی پی' کی ایک تین رکنی کمیٹی قائم کی ہے۔

بقول اُن کے، "یہ تشویش کی بات ہے اور یہ آزادی اظہار سے متعلق آئین کے آرٹیکل 19 کی خلاف ورزی ہے، جس کے تحت عوام کو تمام معلومات تک رسائی کا حق حاصل ہے اور حکومت کا یہ فرض ہے کہ وہ عوام کو مکمل معلومات فراہم کرے‘‘۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور سینیٹ کے سابق چئیرمین سینیٹر رضا ربانی نے کیا کہ یہ بات افسوس ناک ہے کہ آئندہ عام انتخابات سے پہلے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو ڈرانے دھمکانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔

رضا ربانی نے ایک بیان میں کہا کہ ایسے اقدامات آزادی اظہار شہریوں کی معلومات تک رسائی کے اس کے حق کے خلاف ورزی ہیں جن کی ضمانت ملک کا آئین دیتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ صحافیوں اور اخبار کے مدیروں اور کالم نگاروں کو مبینہ طور پر ہراساں کرنے کے اقدمات قابل مذمت ہیں۔

رضا ربانی نے مزید کہا کہ اخبارات تقسیم کرنے والے افراد اور کیبل آپریٹرز کو بھی دباؤ کا سامنا ہے۔

انہوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ اگر ایسے اقدامات جاری رہتے ہیں تو، ان کے بقول، ملک میں صاف و شفاف اور منصفانہ انتخابات کے عمل کو یقنی بنانا ممکن نہیں رہے گا۔

حالیہ مہینوں میں صحافی اور بعض نشریاتی اداروں کی طرف سے ان تحفظات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے کہ ملک میں آزادای اظہار کی فضا سکڑ رہی ہے۔ تاہم، حکومتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ حکومت آزادی اظہار پر یقین رکھتی ہےاور ملک میں آزادنہ اور منصفانہ انتخابات انعقاد کے لیے اپنا کردار آئین کے تحت ادا کرے گی۔