داعش کا خطرہ ٹلا نہیں، ٹھوس کارروائیوں کی ضرورت ہے: تجزیہ کار

فائل فوٹو

سماجی تنظیموں سے وابستہ ایک تجزیہ کار زر علی خان آفریدی کا کہنا ہے کہ داعش کا اس خطے میں وجود ہے اور یہ بلاشبہ ایک خطرے کی بات ہے۔

چند ماہ کے تعطل کے بعد ایک بار پھر رواں ہفتے انسداد دہشت گردی سے منسلک حکام نے پشاور میں داعش سے روابط کے الزام میں دو مشتبہ عسکریت پسندوں کو حراست میں لیا اور ان کے قبضے سے اس شدت پسند گروپ کا تشہیری مواد برآمد کیا۔

چند مہینے قبل پشاور کے نواحی علاقے بڈھ بیر کے بعض دیہاتوں میں بھی داعش کے پرچار پر مبنی تحریری مواد تقسیم کرنے والے بعض افراد کے خلاف کارروائیاں کی گئی تھیں مگر اس کے بعد سے حکام کے یہ بیانات سامنے آتے رہے کہ ملک میں داعش کا وجود نہیں ہے۔

خیبر پختونخوا پولیس کے محکمہ انسداد و دہشت گردی کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وقتاً فوقتاً شک کی بنیاد پر ہونے والی گرفتاریوں کے باوجود خطرے کی کوئی بات نہیں۔

انہوں نے کہا کہ گرفتاری کے بعد تحقیقات کے دوران معلوم ہوتا ہے کہ زیادہ تر مشتبہ افراد لوگوں کو ہراساں کرنے کے لیے داعش کا نام استعمال کرتے ہیں۔

لیکن تجزیہ کار اس بات سے اتفاق نہیں کرتے اور ان کے بقول یہ گروپ پاکستان میں خطرناک صورت اختیار کر سکتا ہے۔

سماجی تنظیموں سے وابستہ ایک تجزیہ کار زر علی خان آفریدی کا کہنا ہے کہ داعش کا اس خطے میں وجود ہے اور یہ بلاشبہ ایک خطرے کی بات ہے۔

"کیوںکہ داعش کا زیادہ تر دباؤ افغانستان کے سرحدی صوبے ننگرہار میں ہے لہٰذا اس کے اثرات خیبر پختونخوا اور ملحقہ قبائلی علاقوں پر ہے، بعض طالبان گروہوں نے داعش کے ساتھ الحاق کا اعلان کر رکھا ہے اسی وجہ سے خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقوں میں اب داعش کا وجود ہے کیوں کہ ان عسکریت پسندوں کا تعلق بھی اس خطے سے ہیں۔"

انہوں نے کہا کہ جس طرح ماضی میں القاعدہ سے منسلک عسکریت پسند تنظیمیں یہاں کے لیے خطرہ رہی ہیں اسی طرح داعش کا وجود بھی اس خطے میں خطرناک صورت حال اختیار کر سکتا ہے۔

مگر دفاعی امور کے تجزیہ کار اور سابق بریگیڈیئر محمود شاہ کا کہنا ہے کہ داعش سے منسلک مقامی عسکریت پسندوں کی تعداد انتہائی کم ہے لہٰذا اسے خطرناک نہیں کہا جا سکتا۔

"داعش سے الحاق کرنے والے پاکستانی طالبان سرحد پار افغانستان میں ہیں اور ان کا افغان طالبان کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہے لہٰذا یہاں پر خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقوں میں ان کی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔"

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ داعش کا وجود ہے مگر مرکزی سطح پر اس تنظیم سے منسلک عسکریت پسند غیر منظم ہیں۔

لیکن ان کے بقول اگر ان کے خلاف مسلسل اور منظم طریقے سے کارروائی نہ کی گئی تو داعش میں دیگر عسکریت پسند تنظیمیں شامل ہو سکتی ہیں جو تشویش کی بات ہو گی۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ لگ بھگ دو سال قبل وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے ملک میں داعش سے متعلق ذرائع ابلاغ میں شامل ہونے والی خبروں کو بے بنیاد قرار دیا تھا تاہم وزیر داخلہ کے بیان کے بعد نہ صرف خیبر پختونخوا اور ملحقہ قبائلی علاقوں بلکہ کراچی، لاہور اور کوئٹہ سمیت ملک کے اہم شہروں اور قصبوں میں نہ صرف داعش سے متعلق پرچار پر مبنی تحریری مواد برآمد ہوا بلکہ اسی تنظیم سے منسلک درجنوں مشتبہ افراد بھی گرفتار کیے گئے ہیں۔

گزشتہ ماہ کے اوائل میں فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے ملک بھر میں داعش سے منسلک 309 افراد کی گرفتاری کی تصدیق کی تھی جن میں ان کے بقول داعش کے ایک سرکردہ کمانڈر کے علاوہ غیر ملکی عسکریت پسند بھی شامل تھے۔