سری نگر میں داعش کے خلاف مظاہرے

سری نگر میں داعش کی جانب سے جامع مسجد کی بے حرمتی کے خلاف مظاہرہ۔ یکم جنوری 2019

بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کے پولیس سربراہ دلباغ سنگھ نے کہا ہے کہ شورش زدہ ریاست میں داعش کی موجودگی نہ ہونے کے برابر ہے لیکن ان کے بقول ملک اور سماج دشمن عناصر مقامی نوجوانوں کو انتہا پسندی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔

منگل کو سری نگر میں ایک نیوز کانفرنس میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، "ملک دشمن اور سماج دشمن عناصر کی طرف سے نوجوانوں کے ایک طبقے کو حتی الامکان انتہاپسندی کی طرف دھکیلنے کی بڑی سنجیدہ کوششیں کی جا رہی ہیں۔ کشمیری معاشرہ ایک بالغ نظر اور سیکولر معاشرہ ہے جہاں تاہم تمام عبادت گاہوں، مذاہب اور فکر و عقیدہ کی تعظيم کی جاتی ہے۔ لیکن بعض عناصر کی طرف سے ایسی کوششیں کی جا رہی ہیں جن کا مقصد اس سوچ و فکر کو خراب کرنا ہے جیسا کہ آپ نے گزشتہ دنوں دیکھا"۔

پولیس سربراہ سری نگر کی تاریخی جامع مسجد میں گزشتہ جمعے کو پیش آئے ایک واقعے پر اپنا ردِ عمل ظاہر کررہے تھے۔

عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ 28 دسمبر کو نماز جمعہ کے بعد نقاب پوش نوجوانوں کی ایک جمعیت مسجد میں داخل ہو گئی اور داعش کا پرچم لہراتے اور نعرے لگاتے ہوئے کچھ دیر کے لیے عبادت گاہ کے محراب اور منبر پر قابض رہی۔ بعد میں اس واقعے کی سوشل میڈیا پر ڈالی گئی ایک ویڈیو وائرل ہو گئی تھی۔

جامع مسجد کے منتظمین نے الزام لگایا ہے کہ نقاب پوش نوجوانوں کی اس جمعیت نے مسجد کے خطبہ گاہ پر چڑھنے کے دوران جوتے پہن رکھے تھے اور اس طرح عبادت گاہ کی بے حرمتی کی گئی۔ اس واقعے کی بھارتی زیر انتظام کی مختلف سیاسی جماعتوں، جن میں استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی جماعتوں کے ساتھ ساتھ بھارت نواز جماعتیں بھی شامل ہیں، سماجی اور تاجر انجمنوں اور سول سوسائٹی گروپس وغیرہ نے مذمت کی ہے۔ کئی عسکری تنظیموں نے بھی واقعے کے خلاف برہمی کا اظہار کیا ہے اوریہ دعویٰ کیا ہے کہ ریاست میں داعش کا کوئی وجود ہے اور نہ اس کی ضرورت ہے۔

تاہم پولیس سربراہ دلباغ سنگھ نے کہا کہ ماضی میں چند نوجوانوں کی طرف سے سری نگر میں کئی مرتبہ داعش کا جھنڈا لہرا کر یہ تاثر پیدا کرنے کوشش کی گئی ہے کہ وادی کشمیر میں اس تنظیم کے "قدموں کے نشان" بڑے پیمانے پر موجود ہیں۔ انہوں نے کہا، “لیکن میں یہ بات دہرانا چاہوں گا کہ داعش کے ساتھ وابستگی جتانے والوں کی موجودگی اتنی زیادہ نہیں ہے لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ لوگوں کو ان سطور پر ڈال کر انتہا پسند بنایا جا رہا ہے۔"

سرکردہ مذہبی اور سیاسی راہنما میر واعظ عمر فاروق نے سری نگر کی جامع مسجد میں پیش آئے واقعے کو ایک سازش قرار دیا اور کہا کہ "چند مفاد پرست اور ایجنسیوں کے آلہ کار" اس تاریخی عبادت گاہ کی مرکزیت کو زک پہنچانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔

میر واعظ عمر نے جو انجمن اوقاف جامع مسجد کے سربراہ بھی ہیں اور ہر جمعے کو جامع مسجد میں وعظ و تبليغ بھی کرتے ہیں کہا، "کشمیر میں جاری حق خود ارادیت کی تحریک خالصتاً کشمیری عوام کی اپنی تحریک ہے اور اس کا کوئی بین الاقوامی ایجنڈا نہیں ہے۔ لہٰذا داعش جیسی تنظیموں کا یہاں کوئی وجود ہے اور نہ اسے کشمیر کے آزادی پسند عوام قبول کریں گے۔ کشمیریوں کی اپنی تحریک مزاحمت کا رُخ بدلنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں لیکن ہم انہیں کامیاب نہیں ہونے دیں گے"۔

جامع مسجد کی مبینہ بے حرمتی کے خلاف منگل کو سری نگر میں ایک احتجاجی جلوس نکالا گیا اور پھر میر واعظ عمر کی پیشوائی میں عبادت گاہ کی" تطہیر " کی گئی۔ انجمن اوقاف جامع مسجد نے آئندہ جمعے کو "یوم تقدس" منانے کا اعلان بھی کیا ہے اور لوگوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اس روز جامع مسجد میں جمع ہو کر 28 دسمبر کو پیش آئی "شر انگیزی" کے خلاف صدائے احتجاج کریں۔

داعش کی طرف سے اس ساری صورت حال اور اس پر کی جا رہی تنقید پر تاحال کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے۔