سائبر سکیورٹی خدشات، نئی قانون سازی کی کوششیں

فائل

وائٹ ہاؤس نے منگل کے روز کہا ہے کہ صدر اوباما کی پیش کردہ تجویز کا مقصد یہ ہے کہ سائبر حملوں کا مداوا کرنے کے لیے حکومت کو مطلع کرنے کی صورت میں، کاروباری اداروں کے خلاف کوئی قانونی چارہ جوئی نہیں ہو سکے گی

نجی اداروں کو ترغیب دینے کی غرض سے کہ وہ سائبر سکیورٹی کے خدشات سے بروقت حکومت کو آگاہ کریں، امریکی صدر براک اوباما نے اس سے متعلق قانون سازی کی منظوری کے حصول کی کوششیں تیز کر دی ہیں۔

وائٹ ہاؤس نے منگل کے روز کہا ہے کہ اس تجویز کا مقصد سائبر حملوں کا مداوا کرنے کے لیے حکومت کو مطلع کرنے کی صورت میں، کاروباری اداروں کے خلاف ممکنہ قانونی چارہ جوئی نہیں کی جا سکے گی۔


مجوزہ قانون سازی کے تحت، نجی اداروں کے لیے لازم ہوگا کہ ڈیٹا کے صیغہ راز میں نہ رہنے کی اطلاع صارفین کو دیں۔ حالیہ مہینوں کے دوران امریکہ کے کئی بڑے ادارے سائبر سکیورٹی کا ہدف بن چکے ہیں، اور چوری ہونے والی اطلاعات کی فروخت کی مجرمانہ حرکت سامنے آئی ہے۔

امریکی کانگریس نے اس قسم کی ایک مجوزہ قانون سازی کی منظوری روک دی تھی۔

شہری حقوق سے متعلق ادارے صارفین کی نجی مالی معلومات کی حد سے زیادہ نگرانی کا کام حکومت کے حوالے کرنے کے مخالف ہیں، جب کہ چند قدامت پسند قانون ساز نے اس بات پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہیں کہ ایسی قانون سازی کے نتیجے میں حکومت کو کسی اضافی ادارے کی تشکیل کا جواز مل جائے گا۔

آج ہی کے دِن، مسٹر اوباما ’قومی سائبر سکیورٹی اور مواصلات کے مرکز‘ میں منعقد ایک اجلاس میں اپنے مجوزہ اقدام کی وضاحت کرنے والے ہیں۔

بقول اُن کے، اس قانون سازی کی ضرورت اِس لیے درپیش ہے، چونکہ ایک ہی روز قبل ہیکرز نے امریکی سینٹرل کمانڈ کے ٹوئٹر اور یوٹیوب کے سماجی میڈیا سے متعلق اکاؤنٹس ہیک کردیے تھے، جو عراق اور شام میں داعش کے باغیوں پر امریکی قیادت میں کیے جانے والے فضائی حملوں کے کام سے تعلق رکھتے ہیں۔

ہیکرز نے کہا ہے کہ اُن کی ہمدردیاں دولت اسلامیہ کے ساتھ ہیں اور یہ کہ وہ امریکی فوج کے لیے پریشانی پیدا کرنے کے عزائم رکھتے ہیں۔

ادھر، سینٹرل کمانڈ نے اس سائبر حملے کو ’سائبر غنڈہ گری‘ قرار دیا ہے اور اِن اکاؤنٹس کو منسوخ کردیا گیا ہے۔ تاہم، منگل کو یہ اکاؤنٹس پھر سے کام کرنے لگے ہیں۔