وانا: پی ٹی ایم اور امن کمیٹی میں جھڑپوں کے بعد کرفیو نافذ

جھڑپوں کے بعد سے علاقے میں کرفیو نافذ ہے اور سکیورٹی دستے گشت کر رہے ہیں (فائل فوٹو)

اطلاعات کے مطابق تصادم کے بعد وانا اور نواحی علاقوں میں اتوار کی شب کرفیو نافذ کردیا گیا تھا جو پیر کو بھی جاری ہے۔

جنوبی وزیرستان کے مرکزی قصبے وانا میں ایک روز قبل پشتون تحفظ تحریک (پی ٹی ایم) کے کارکنوں اور حکومت کے وفادار سابق عسکریت پسندوں کے درمیان ہونے والی جھڑپ میں ہلاکتوں کی تعداد پانچ ہوگئی ہے جبکہ علاقے میں کرفیو نافذ کردیا گیا ہے۔

جھڑپ میں 30 کے لگ بھگ افراد زخمی بھی ہوئے تھے جنہیں مختلف اسپتالوں میں طبی امداد دی جارہی ہے۔

اطلاعات کے مطابق تصادم کے بعد وانا اور نواحی علاقوں میں اتوار کی شب کرفیو نافذ کردیا گیا تھا جو پیر کو بھی جاری ہے۔

علاقے میں تمام تجارتی مراکز اور معاشی سرگرمیاں بند ہیں جبکہ کرفیو کے باعث تمام سڑکیں سنسان ہیں۔

علاقے میں سکیورٹی فورسز کے دستے گشت کر رہے ہیں جب کہ مواصلاتی رابطے بھی منقطع کردیے گئے ہیں۔

جنوبی وزیرستان کی انتظامیہ نے اتوار کو ہونے والی جھڑپوں اور ان میں ہونے والے مالی اور جانی نقصانات کے بارے میں ابھی تک کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا ہے۔

تاہم مقامی قبائلیوں نے بتایا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں پشتون تخفظ تحریک کے تین اور حکومت کے وفادار دو عسکریت پسند شامل ہیں۔

تصادم میں زخمی ہونے والے لگ بھگ 30 زخمیوں میں سے چار کو پشاور منتقل کیا گیا ہے جبکہ دیگر وانا اور ڈیرہ اسماعیل خان کے اسپتالوں میں زیرِ علاج ہیں۔

غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق پشتون تحفظ تحریک کے مقامی رہنما علی وزیر ان جھڑپوں میں محفوظ رہے ہیں۔ تاہم تصادم کے بعد سے سوشل میڈیا پر پی ٹی ایم کے متعدد کارکنوں کی گمشدگی کی افواہیں گردش کر رہی ہیں۔

وانا میں پشتون تحفظ تحریک اور حکومت کے وفادار عسکریت پسندوں کے درمیان کشیدگی گزشتہ ہفتے اس وقت شروع ہوئی تھی جب علاقے میں سرگرم امن کمیٹی کے مبینہ رضاکاروں نے تحریک کے بعض کارکنوں سے ان کی ٹوپیاں چھیننے کے بعد انہیں آگ لگادی تھی۔

پی ٹی ایم نے اس واقعے کے خلاف پیر کو احتجاجی دھرنے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن اتوار کی سہ پہر جنوبی وزیرستان میں حکومت کی حمایت یافتہ امن کمیٹی کے مبینہ عسکریت پسندوں نے علی وزیر کے گھر کا محاصرہ کر کے ان سے تحریک سے علیحدہ ہونے کا مطالبہ کیا تھا اور بصورت دیگر انہیں علاقے سے نکلنے کا حکم دیا تھا۔

اس کارروائی کے ردِ عمل میں پی ٹی ایم کے درجنوں کارکنوں اور احمد زئی وزیر قبیلے کی مختلف شاخوں سے تعلق رکھنے والے لوگ جمع ہوگئے تھے جنھوں نے نہ صرف عسکریت پسندوں کو علی وزیر کے گھر کا محاصرہ ختم کرنے پہ مجبور کردیا تھا بلکہ امن کمیٹی کے دفتر پر بھی ہلہ بول دیا تھا۔

اس کارروائی کے بعد امن کمیٹی کے رضاکاروں اور پی ٹی ایم کے کارکنوں کی درمیان جھڑپوں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا جو رات دیر گئے تک جاری رہا۔

واضح رہے کہ علی وزیر جنوبی وزیرستان سے قومی اسمبلی کے حلقے این اے 50 سے آزاد امیدوار کی حیثیت سے آئندہ انتخاب میں حصہ لے رہے ہیں۔

مقامی قبائلیوں کے مطابق امن کمیٹی میں شامل عسکریت پسندوں اور علی وزیر کے خاندان کے درمیان گزشتہ کئی برسوں سے لڑائی چلی آرہی ہے۔