کشمیر میں کرفیو کا حکم نامہ واپس ہونے کے باوجود سخت پابندیاں عائد

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں کرفیو کے نفاذ کا حکم نامہ واپس لیے جانے کے باوجود غیر معمولی پابندیاں برقرار ہیں۔ حکام پابندیوں کو کرونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کا اقدام قرار دے رہے ہیں۔

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی انتظامیہ نے منگل کی رات کو یہ اعلان کیا تھا کہ سرینگر میں پیر کی رات سے 60 گھنٹوں کے لیے کرفیو نافذ کرنے کے حکم نامے کو واپس لے لیا گیا ہے۔

بدھ کو مقامی پولیس اور نیم فوجی دستوں نے مسلسل دوسرے دن بھی شورش زدہ علاقے کے گرمائی دارالحکومت میں غیر معمولی حفاظتی پابندیاں عائد رکھیں۔

وادیٴ کشمیر کے دوسرے شہروں میں بھی لوگوں کی نقل و حرکت پر پابندیاں نافذ رہیں۔ حکام کا دعویٰ تھا کہ یہ پابندیاں کرونا وائرس کا پھیلاوٴ روکنے کے لیے ناگریز ہیں۔

دوسری جانب ناقدین کا کہنا ہے کہ بھارتی حکومت نے کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کا ایک سال مکمل ہونے پر کرفیو لگایا تھا۔ اس فیصلے پر کشمیر اور کشمیر کے باہر شدید تنقید کی جا رہی تھی۔ اس لیے انتظامیہ نے حکم نامہ واپس تو لے لیا لیکن شہر میں عملاً کرفیو نافذ ہے۔

حزبِ اختلاف کی جماعتوں کا اجلاس، سڑکوں کی ناکہ بندی

اس دوران پولیس نے سابق وزیرِ اعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کے صدر ڈاکٹر فاروق عبد اللہ کی سرینگر کے گپکار روڑ پر واقع رہائش گاہ پر مرکزی دھارے میں شامل حزب اختلاف کی جماعتوں کے رہنماؤں کا اجلاس روکنے کے لیے پورے علاقے میں خار دار تاریں بچھا دیں اور رکاوٹیں کھڑی کرکے علاقے کی ناکہ بندی کر دی۔

فاروق عبد اللہ کا کہنا تھا کہ انہوں نے اجلاس جموں و کشمیر کی صورتِ حال پر غور کرنے اور ان جماعتوں سے مشترکہ لائحہ عمل ترتیب دینے کی غرض سے بلایا تھا۔

Your browser doesn’t support HTML5

سرینگر: 'ٹو جی' انٹرنیٹ سے پریشان طلبہ کے لیے اوپن ایئر کلاسز

قبل ازیں ان تمام سیاسی رہنماؤں کے گھروں کے باہر بھی پولیس کی بھاری نفری تعینات کر دی گئی تھی جنہوں نے اجلاس میں شریک ہونا تھا۔

اجلاس میں مدعو کیے گئے سیاستدانوں میں بھارت کی مارکس وادی کیمونسٹ پارٹی کی مقامی شاخ کے سربراہ محمد یوسف تاریگامی بھی شامل تھے۔ انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ہمیں ایک سال اور کئی ماہ جیلوں یا نظر بندی میں رہنے کے بعد ملنے کا موقع مل رہا تھا۔ لیکن اربابِ اقتدار نے ایسا نہیں ہونے دیا۔

ان کے بقول وہ خوف زدہ نظر آ رہے ہیں کیوں کہ انہیں یقین نہیں کہ انہوں نے پانچ اگست2019 کو جو اقدامات کیے تھے وہ درست تھے یا غلط۔۔ وہ کہیں بھی جشن منائیں لیکن کشمیری عوام جن مصائب و آلام سے گزر رہے ہیں دنیا اُن سے بے خبر نہیں ہے اور نہ یہاں کی صورتِ حال دنیا سے اوجھل ہے۔

پولیس پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی ﴿پی ڈی پی﴾ کے صدر دفتر کے باہر بھی دن بھر پہرہ دیتی رہی۔ پی ڈی پی نے سرینگر میں ایک احتجاجی جلوس نکالنے کا اعلان کیا تھا۔

'جو یومِ سیاہ منارہے ہیں وہ داعش کے ہمدرد ہیں'

بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے وابستہ اراکین اور رہنماؤں نے سرینگر اور جموں میں بھارت کے آئینِ کی دفعہ 370 کے خاتمے کا ایک سال مکمل ہونے پر جشن منایا اور بھارت کا قومی پرچم لہرایا۔

بی جے پی کے ایک مقامی رہنما الطاف ٹھاکر نے سرینگر میں پارٹی کے صدر دفتر پر بھارت کا جھنڈا لہرانے کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جو لوگ پانچ اگست کو یومِ سیاہ منا رہے ہیں وہ داعش کے ہمدرد ہیں کیوں کہ ان کا سیاہ رنگ کے ساتھ لگاوٴ ہے۔

نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور سابق وزیرِ اعلیٰ عمر عبداللہ نے اس بات پر تعجب کا اظہار کیا کہ ایک طرف حزبِ اختلاف کے رہنماؤں اور کارکنوں کی نقل و حرکت پر پابندی ہے اور دوسری طرف انتظامیہ اور پولیس نے بی جے پی کو نہ صرف تقریبات منعقد کرنے کی اجازت دی بلکہ انہیں اس کے لیے مدد بھی فراہم کی۔

انہوں نے اسے حکومت کی منافقت قرار دیا۔

Your browser doesn’t support HTML5

بھارتی کشمیر: نئی میڈیا پالیسی کے خلاف صحافیوں کا احتجاج

ایمنسٹی انٹرنیشنل کا انسانی حقوق کی فراہمی پر زور

علاوہ ازیں نیویارک میں قائم ہیومن رائٹس واچ کے بعد انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک اور بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی بھارت کی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی فراہمی ممکن بنائے اور اظہارِ خیال اور شہری آزادیوں پر عائد پابندیوں کو ختم کرے۔

بدُھ کو جاری بیان میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا کہ بھارت کی حکومت کو جموں و کشمیر کے تمام سیاسی رہنماؤں، صحافیوں اور سرگرم کارکنوں کو انتظامی حراست سے رہا کیا جائے اور تیز رفتار فور-جی انٹرنیٹ بحال کیا جائے۔