کوؤں کی چالاکی اور ہوشیاری کے قصے تو عام ہیں ، لیکن اب سائنس دانوں کا کہناہے کہ کرخت آواز والا یہ کالا پرندہ صرف چالاک ہی نہیں بلکہ بہت ذہین اور عقل مند بھی ہے۔اس کی یاداشت بہت تیز ہے اور وہ سوچ سمجھ کر قدم اٹھاتا ہے۔ اسی لیے اسے پکڑنا اور نشانہ بنانا بہت دشوار ہے۔
حال ہی میں جاپان کی ایک یونیورسٹی میں کوؤں پر جاری تحقیق سے اس کی یاداشت اور شناخت کی صلاحیت کے نئے پہلوسامنے آئے ہیں۔
ایسے مناظر تو آپ کی نظر سے بھی گذرے ہوں گے کہ چھوٹے بچے کو تنہا دیکھ کر کوا اس کے ہاتھ سے کھانے کا ٹکڑا جھپٹ کر لے اڑتا ہے جب کہ بڑوں کے نزدیک نہیں پھٹکتا۔
مختلف معاشروں میں کوؤں سے بہت سی روایات وابستہ ہیں، مثلاً ہمارے ہاں منڈیر پر کوا بولنے کو مہمان کی آمد سے تعیبر کیا جاتا ہے۔
جاپان کے سائنس دانوں کی ایک ٹیم پروفیسر شوئی سوگیتا کی قیادت میں چند برسوں سےجنگلی کوؤں پر تحقیق کررہی ہے ۔ ان کے حالیہ تجربات سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ کوا ہندسوں اور نمبروں کو شناخت کرسکتا ہے اور درجنوں نمبروں میں سے وہ نمبر چن سکتا ہے جس کے لیے اسے کہا جائے۔
جاپان کی اوتسونومیا یونیورسٹی کے شعبہ حیوانات کی پروفیسرشوئی سوگیتا کا کہنا ہے کہ ان کے تجربات یہ ثابت کرتے ہیں کہ نمبروں اور ہندسوں کی شناخت کے معاملے میں کوے کی ذہانت انسان جیسی ہے۔
انہوں نے اپنے اس تجربے کے لیے دو ڈبے استعمال کیے۔ جس میں سے ایک ڈبے کے ڈھکن پر دو کا ہندسہ اور دوسرے پر پانچ کا عدد لکھا۔ دو نمبر کا ڈبہ خالی تھا جب کہ پانچ نمبر کے ڈبے میں کوؤں کی پسندیدہ خورک رکھی گئی تھی۔ ان ڈبوں کو کوے کے پنجرے میں رکھ دیا گیا۔ کوے نے تھوڑی ہی دیر میں یہ یاد کرلیا کہ خوراک کے ڈبے کا نمبر پانچ ہے۔
جانوروں کی عادات سے متعلق جریدے ’ Animal Behavior‘ میں شائع ہونے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس کے بعد دونوں ڈبوں کو باری باری پنجرے میں مختلف مقامات پر اور مختلف ترتیب سے رکھا گیا۔ ان تجربات میں کوے کی کامیابی کی شرح 70 فی صد رہی۔
یہ تجربہ باری باری آٹھ جنگلی کوؤں پر کیا گیا اور ہر بار کامیابی کا تناسب تقربیاً اتنا ہی رہا۔
اس کے بعد کیے جانے والے تجربوں میں ایک ڈبے کے ڈھکن پر پانچ کا عدد اور دوسرے پر مختلف ہندے اور اشکال بنائی گئیں اور انہیں مختلف جگہوں پر رکھا گیا۔ پروفیسرسوگیتا کا کہنا ہے کہ کوؤں کی کامیابی کی شرح70 سے 90 فی صد تک رہی۔
کوؤں کی ذہانت اور چیزوں کی شناخت کی صلاحیت پر کیے جانے والے یہ تازہ ترین تجربات ہیں۔ جب کہ پچھلے سال اسی یونیورسٹی میں پروفیسر سوگیتا کی ٹیم نے اپنی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ کوئے عورت اور مرد کے چہرے کی شناخت کرسکتے ہیں۔
پروفیسر سوگیتا نے جاپان کے ایک ٹیلی ویژن پر اپنے انٹرویو میں کہا ہے کہ کوا اس سے کہیں زیادہ ذہین ہے جتنا کہ ہم اسے سمجھتے ہیں۔
پیاسے کوئے کی کہانی تو صدیوں سے تقریباً ہر معاشرے میں پڑھی اور سنی جارہی ہے۔ کچھ عرصہ قبل سائنس دانوں نے اس کہانی کی حقیقت جانچنے کے لیے ایک پیاسے کوئے پر تجربات کے دوران اس کے پنجرے میں ایک ٹیوب اتنا پانی ڈالا کہ اس چونچ پانی تک نہ پہنچ سکے۔ پھر ٹیوب کے قریب ہی چند کنکر رکھ دیے۔ کوئے نے نہ صرف ٹیوب میں کنکر ڈال کر پانی پیا بلکہ تھوڑی سی مشق کے بعد اسے یہ بھی پتا چل گیا کہ پانی کی سطح بلند کرنے کے لیے ٹیوب میں کس سائز کے کتنے کنکر ڈالنے ہوں گے۔
چند سال قبل برطانیہ کی یونیورسٹی آف کیمبرج کے سائنس دانوں نے جنگلوں میں خفیہ ویڈیو کیمرے نصب کرکے ایک طویل تحقیق کے بعد بتایا تھا کہ کوا خوراک حاصل کرنے کے لیے صرف اپنی چونچ سے ہی کام نہیں لیتا، بلکہ انسانوں کی طرح کئی اوزار اور آلات بھی استعمال کرتا ہے۔ مگر یہ اوزار قدرتی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ مثلاً وہ نوک دار تنکوں سے درخت کے تنے کے ان باریک سواخوں میں سے اپنا شکار باہر نکال لیتاہے جہاں اس کی چونچ نہیں پہنچ سکتی۔ اسی طرح وہ پتلی شاخ کا کونا تراش کر چیزوں کو چیرنے اور کاٹنے کے لیے چاقو جیسا نوک دار آلہ بنا لیتا ہے۔
ویڈیو ریکارنگ سے یہ بھی پتا چلا کہ کوا کوئی ایسی چیز، مثلاً اخروٹ یا بادام یا ایسا ہی سخت چھال والا کوئی پھل جسے وہ اپنی چونچ میں دبا کر توڑ نہ سکے، اسے سڑک پر پھینک پر قریبی درخت پر انتظار میں بیٹھ جاتا ہے۔ اور جب گاڑی کا پہیہ گذرنے سے وہ ٹوٹ جاتا ہے تو اسے کھالیتا ہے۔
غالباً فراست اور سمجھ بوجھ میں کوئے کو پرندوں میں وہی حیثیت حاصل ہے جو جانوروں میں بندروں کو ہے۔