افغانستان میں گزشتہ منگل کی ہلاکت خیز کارروائیوں کے بعد، جن میں کم سے کم 56 افراد کے ہلاک ہونے کی خبر ہے، تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ واقعات امریکہ اور طالبان کے درمیان فروری میں طے پانے والے معاہدے کے لئے اچھا شگون نہیں ہیں۔
اس معاہدے کے بارے میں یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ یہ افغانستان میں مفاہمت کی جانب پہلا قدم ہوسکتا ہے۔ لیکن، اب اس ملک میں کسی امن معاہدے کے امکانات کے بارے میں، جو امریکہ کی سب سے طویل جنگ کے خاتمے کا وسیلہ بن سکتا تھا، گہرے شکوک و شبہات پیدا ہوگئے ہیں۔
وائس آف امریکہ کی نامہ نگار سنڈی سین نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ ایک ہی دن ہونے والے تشدد کے دو ہولناک واقعات نے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے، جس کے ردعمل میں صدر اشرف غنی نے قومی افواج کو حکم دیا ہے کہ اب وہ طالبان کے خلاف براہ راست کارروائی کا طریقہ اختیار کرلیں۔
افغانستان کے دارالحکومت کابل میں جو عشروں سے جاری جنگ کے نتیجے میں پہلے ہی صدمے سے دوچار ہے، عسکریت پسندوں نے ایک میٹرنٹی ہوم پر دھاوا بول کر کم سے کم 14 افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا جن میں عورتیں اور نوزایئدہ بچے شامل تھے۔
دوسرا خودکش حملہ مشرقی صوبے ننگرہار میں ایک پولیس افسر کی تدفین کے موقع پر کیا گیا۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے میٹرنٹی ہوم میں عورتوں اور نوزایئدہ بچوں پر حملے کو خالصتاً برائی قرار دیا ہے۔
صدر اشرف غنی کے ترجمان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ طالبان نے تشدد کو کم کرنے کے لئے اپنے وعدے سے انحراف کیا ہے۔ صدارتی ترجمان کے بقول، طالبان افغانستان کے اندر دہشت گردوں کے لئے ماحول مہیا کرتے ہیں اور بہت سے دہشت گرد گروپ طالبان کی چھتری تلے کارروائیاں کرتے ہیں۔
طالبان نے منگل کے دن کے ان حملوں میں ملوث ہونے سے انکار کیا ہے۔ تاہم، افغانستان کی صورتحال پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کے مطابق تشدد میں اضافے نے بہرحال امن کے نازک عمل پر گہرا سایہ ڈال دیا ہے۔
وہ اس جانب توجہ دلاتے ہیں کہ فروری کے مہینے میں جب سے امریکہ اور طالبان کے درمیان دوحہ میں امن معاہدے پر دستخطہ ہوئے ہیں کم و بیش روزانہ کے پرتشدد واقعات نے امن کے امکانات کو گہنا دیا ہے۔
افغانستان کے بارے میں ریسرچ اور مطالعاتی ادارے سے متعلق اعلٰی عہدیدار نشانک موتوانی نےتازہ صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر افغان حکومت کے ساتھ صحیح معنوں میں مذاکرات کرنے ہیں تو یہ پرامن طرز عمل کا مظاہرہ نہیں ہے۔
ایک ایسے ماحول میں جب کہ انتشار اور سخت محاذ آرائی کی کیفیت نظر آتی ہے، افغانستان میں مفاہمت کے لئے امریکہ کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد نے ایک ٹوئٹر پیغام میں افغان حکومت اور طالبان، دونوں سے کہا ہے کہ وہ، بقول ان کے، مشترکہ دشمن کے خلاف مل کر کام کریں۔ انھوں نے کہا کہ یہی وقت ہے کہ امن کے لئےآگے کی جانب قدم اٹھایا جائے۔
تجزیہ کاروں کی نظر میں دیکھنا یہ ہے کہ اس تناؤ کے ماحول میں صدر غنی کی دھمکی اور طالبان کے ممکنہ ردعمل کا نتیجہ کیا نکلتا ہے اور جنگ سے تباہ حال ملک میں امن کے امکانات کیا رخ اختیار کرتے ہیں؟