آکسفورڈ یونی ورسٹی کے سائنس دانوں نے اس اعتماد کا اظہار کیا ہے کہ وہ کرونا وائرس کے انسداد کے لیے وقت سے پہلے ویکسین تیار کر لیں گے۔
اُن کے اس دعوے سے یہ امید کی جا رہی ہے کہ ویکسین کے لیے شاید اگلے سال تک کا انتظار نہ کرنا پڑے۔ اس ویکسین کا پہلا انجیکشن یونی ورسٹی کے جینر انسٹی ٹیوٹ نے تیار کیا ہے۔ اس کی آزمائش بھی وقت سے پہلے شروع ہو گی۔
اخبار 'نیو یارک ٹائمز' کی خبر کے مطابق، سائنس دان اس ویکسین کو مئی کے آخر میں چھ ہزار سے زیادہ افراد پر آزمائیں گے۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اگر سب کچھ پروگرام کے مطابق ہوا، تو ستمبر تک دس لاکھ ویکسین ڈوز تیار ہو جائیں گے۔ اس کے بعد یہ سال سے ڈیڑھ سال کے اندر پوری دنیا میں دستیاب ہو جائے گی۔
اس پروگرام کی لیڈر سارہ گلبرٹ نے کہا ہے کہ انہیں 80 فی صد اعتماد ہے کہ یہ ویکسین کارگر ہو گی۔
برطانوی حکومت نے اس ویکسین کی مالی معاونت کی ہے۔ برطانیہ کے وزیرِ صحت میٹ ہین کاک نے پچھلے ہفتے کہا تھا کہ ہم اس ٹیم کی ہر ممکن مدد کریں گے اور انہیں درکار تمام وسائل مہیا کریں گے۔
ابتدائی تجربات سے اس ویکسین کے موثر ہونے کے امکانات ظاہر ہوئے ہیں۔ جانوروں پر اس کے تجربات سے اس کی تصدیق ہوئی ہے کہ اس سے مدافعتی نظام مضبوط ہوتا ہے۔
عام نزلہ زکام کے وائرس کے لیے استعمال ہونے والی ویکسین میں تبدیلیاں کر کے کرونا ویکسین بنائی گئی ہے۔ سائنس دانوں نے اس میں کرونا وائرس کی پروٹینز کو شامل کیا ہے، تاکہ اس سے جسم کا مدافعتی نظام فعال ہو اور وہ پروٹین کے خلاف اینٹی بادیز بنائے۔ اور اس طرح یہ ویکسین کرونا وائرس کے خلاف کام کرے گی اور اس کو ختم کردے گی۔
آکسفورڈ ویکسین کی تیز رفتار تیاری کا بڑا سبب یہ ہے کہ اس کے بنیادی عناصر کی پہلے ہی ٹسٹینگ ہو چکی ہے۔
تحقیق کاروں کا کہنا کہ کہ اگر اس کی آزمائش برطانیہ میں کامیاب نہ ہوئی تو وہ اس کو ان دوسرے ملکوں میں ٹسٹ کریں گے جہاں کرونا تیزی سے پھیلا ہے۔
اس وقت پوری دنیا میں ایک سو سے زیادہ تجربہ گاہوں میں کرونا وائرس کے انسداد کے لیے ویکسین پر تجربات ہو رہے ہیں۔