امریکہ بھر میں کرونا وائرس کا طوفان ابھی تھما بھی نہیں تھا کہ ایک سیاہ فام شخص کی پولیس کی تحویل میں موت کے نتیجے میں وسیع مظاہروں نے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
احتجاج کے دوران، ملک بھر میں بڑے بڑے ہجوم سڑکوں پر جمع ہو رہے ہیں جس سے یہ تشویش بھی پیدا ہو رہی ہے کہ اس صورتحال میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ میں اضافہ ہوسکتا ہے، جبکہ دوسری جانب، بہت سی ریاستوں میں بندشوں میں آہستہ آہستہ نرمی بھی کی جارہی ہے۔
نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی میں گلوبل ہیلتھ انسٹیٹوٹ کے ڈائریکٹر، ڈاکٹر رابرٹ مرفی نے، جو شکاگو میں اپنی رہائش گاہ سے لاک ڈاون کے دوران مظاہروں کا جائزہ لیتے رہے ہیں، اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ لوگ اچانک اس بات کو فراموش کرگئے ہیں کہ ملک اس وقت ایک ہولناک عالم گیر وبا کے خلاف جنگ میں مصروف ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس وبا کو ملکی سیاست سے کوئی سروکار نہیں۔ ان کے الفاظ میں، ''یہ ایک کے بعد دوسرے کو شکار کرتی ہے۔ لہٰذا، آپ خود کو اور ساتھ ہی دوسروں کو بھی خطرے سے دوچار کر رہے ہیں''۔
اس سے ملتا جلتا پیغام شکاگو کی میئر لوری لائٹٖ فٹ نے بھی دیا جبکہ ساتھ ہی انھوں نے عوامی بیچینی کے باوجود، شہر میں بندشوں میں نرمی کا فیصلہ کیا۔
وائس آف امریکہ کے نامہ نگار کین فاراباو نے شکاگو سے ہی اپنی رپورٹ میں میئر کے حوالے سے بتایا کہ خدشات حقیقی معنوں میں موجود ہیں اور آنے والے دنوں میں بھی رہیں گے اور اس سے بچاؤ کے لئے اختیاطی تدابیر اختیار کرنا ہوں گی۔
مظاہروں کے نتیجے میں تشدد اور توڑ پھوڑ میں ممکنہ اضافے کے پیش نظر صحت عامہ کے محکمے نے کرونا وائرس کی جانچ کے مراکز عارضی طور پر بند کر دئے ہیں۔
ماہرین کے مطابق، اس کے منفی اثرات بعد میں سامنے آئیں گے۔ ڈاکٹر مائیکل لین، جو رش یونیورسٹی میں میڈیسن کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں، کہتے ہیں کہ موجودہ مظاہروں کا کرونا وائرس کے پھیلاؤ پر کیا اثر پڑے گا! یہ فوری طور پر معلوم نہیں ہو سکے گا، بلکہ ہجوم چھٹ جانے کے ہفتے دو ہفتے بعد ہی اس کا اندازہ ہوسکے گا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ کرونا کے انفیکشن کو اپنا رنگ دکھانے میں تقریباً اتنا ہی وقت لگتا ہے۔ لیکن، ساتھ ہی ڈاکٹر مائیکل لین کا یہ بھی کہنا ہے کہ انفیکشن کے پھیلاؤ کے نقطہ نظر سے یہ تھوڑی سی کم تشویش کی بات یوں ہے کہ لوگوں کا ہجوم کھلی جگہوں پر ہوتا ہے نہ کہ کسی بند مقام پر۔
ان کے مطابق، ہمارے علم میں ہے کہ پھیلاؤ کا خطرہ زیادہ تر بند مقامات پر ہوتا ہے جس کی وجہ تازہ ہوا کی آمد و رفت کی کمی بتائی جاتی ہے۔ اسی طرح کھلی فضا میں سورج کی وہ شعاعیں بھی ہوتی ہیں جنھیں یو وی کہا جاتا ہے جو وائرس کو تباہ کرنے کا کام بھی کرتی ہیں۔
دوسری طرف، مظاہروں کے دوران یہ بات بھی مشاہدے میں آئی ہے کہ خاصے لوگوں نے ماسک بھی پہنے ہوئے ہیں، جس سے فضا میں جراثیم کو پھیلنے سے روکنے میں مدد مل سکتی ہے۔ تاہم، ماہرین اس جانب بھی توجہ دلاتے ہیں کہ بات جب وائرس کے پھیلاؤ کی آتی ہے تو اس کی پیشگوئی بہت دشوار ہے۔
اس منظر نامے میں، خاص طور پر جب امریکہ میں کرونا وائرس کے انفیکشن میں مبتلا مریضوں کی تعداد تقریباً بیس لاکھ تک پہنچنے والی ہے، بعض امریکی یہ کہتے ہیں کہ ہمیں بہرحال یہ دیکھنا ہوگا کہ مظاہروں اور احتجاج کے حق کے استعمال میں، صحت عامہ کو کیا خطرات لاحق ہوسکتے ہیں؟