رسائی کے لنکس

امریکہ میں سیاہ فام شخص کی ہلاکت: مزید تین پولیس اہلکار مقدمے میں نامزد


اٹارنی جنرل کے مطابق مزید تین اہلکاروں پر قتل کی حوصلہ افزائی کرنے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
اٹارنی جنرل کے مطابق مزید تین اہلکاروں پر قتل کی حوصلہ افزائی کرنے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

امریکہ میں ایک سیاہ فام شہری جارج فلائیڈ کی پولیس کی تحویل میں موت کے بعد حکام نے مزید تین پولیس اہلکاروں کو مقدمے میں نامزد کر دیا ہے جب کہ مرکزی ملزم ڈیرک چاون کے خلاف سیکنڈ ڈگری مرڈر کی دفعہ بھی عائد کر دی ہے۔

ریاست منی سوٹا کے اٹارنی جنرل کیتھ ایلیسن اور ہینیفن کاؤنٹی کے اٹارنی مائیک فری مین نے بدھ کو مشترکہ پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ جارج فلائیڈ کی موت کے الزام میں مزید تین پولیس اہلکاروں کے خلاف سنگین جرم کے الزامات عائد کیے جا رہے ہیں۔

اٹارنی جنرل کے مطابق 26 سالہ الیگزینڈر کیونگ، 37 سالہ تھامس لین اور 34 سالہ ٹو تھاؤ پر قتل میں مدد کرنے اور قتل کی حوصلہ افزائی کرنے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

حکام کا کہنا ہے کہ تینوں اہلکاروں کے خلاف ان الزامات کے بعد ان کی فوری گرفتاری متوقع ہے۔

یاد رہے کہ جارج فلائیڈ کی گردن پر گھٹنا رکھنے والے 46 سالہ اہلکار ڈیرک چاون پر ہینیفن کاؤنٹی کے پراسیکیوٹر نے گزشتہ ہفتے تھرڈ ڈگری مرڈر کے الزام میں مقدمہ چلانے کا اعلان کیا تھا جس پر کڑی تنقید کی جا رہی تھی۔

تاہم بدھ کو ریاست منی سوٹا کے اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ڈیرک چاون کے خلاف مقدمے میں سیکنڈ ڈگری مرڈر کی دفعہ بھی شامل کی جا رہی ہے۔

امریکی قوانین کے تحت سیکنڈ ڈگری مرڈر غیر ارادی طور پر کیا جانے والا قتل ہے لیکن اسے سنگین جرم سمجھا جاتا ہے۔ امریکہ میں اس جرم کی زیادہ سے زیادہ سزا 40 سال قید ہے۔

تھرڈ ڈگری مرڈر بھی خطرناک جرم ہے لیکن اس میں یہ تصور کیا جاتا ہے کہ ملزم کا مقتول کو جان سے مارنے کا ارادہ نہیں تھا۔ امریکہ میں اس نوعیت کے کیسز میں ملزم کو زیادہ سے زیادہ 25 برس قید کی سزا ہو سکتی ہے۔

امریکہ میں گزشتہ نو روز سے جاری احتجاج کے دوران مظاہرین مسلسل مطالبہ کر رہے تھے کہ جارج فلائیڈ کی گرفتار کے وقت ڈیرک چاون کے ساتھ موجود تین دیگر پولیس اہلکاروں کو بھی مقدمے میں شامل کیا جائے۔

کئی سرکردہ مظاہرین، سماجی رہنماؤں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے پولیس افسران پر مقدمے کو خوش آئند قرار دیا ہے۔ البتہ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکام کے ان اقدامات کے باوجود احتجاج کی جاری لہر کمزور پڑنے کا امکان نہیں۔

منی سوٹا کے اٹارنی جنرل نے بدھ کو نیوز بریفنگ کے دوران صحافیوں کو مزید بتایا کہ تمام چار پولیس اہلکاروں پر الزامات دستیاب شواہد کے بعد عائد کیے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جارج فلائیڈ کے قتل کی تحقیقات جاری تھیں اور یہ جاری رہیں گی۔ ان کے بقول حکام کو یقین ہے کہ ان کے پاس موجود شواہد مرکزی ملزم کے خلاف سیکنڈ ڈگری مرڈر کے الزام کو تقویت بخشتے ہیں۔

کیتھ ایلیسن کا کہنا تھا کہ مجھے یقین ہے کہ حالیہ پیش رفت جارج فلائیڈ اور ان کے اہلِ خانہ کو انصاف دلانے میں مددگار ثابت ہو گی۔ ان کے بقول حکام اس کیس میں صرف ایک مقصد کے لیے کام کر رہے ہیں اور وہ انصاف کی فراہمی ہے۔

یاد رہے کہ 25 مئی کو ریاست منی سوٹا کے شہر منیاپولس میں پولیس اہلکاروں نے ایک سیاہ فام شہری جارج فلائیڈ کو تحویل میں لیا تھا۔ اس دوران ڈیرک چاون نامی اہلکار نے جارج کو زمین پر لٹا کر اس کی گردن کو تقریباً نو منٹ تک اپنے گھٹنے سے دبائے رکھا تھا اور فلائیڈ اور موقع پر موجود لوگوں کی بار بار اپیلوں کے باوجود فلائیڈ کی گردن سے گھٹنا نہیں اٹھایا تھا۔

بعد ازاں فلائیڈ کو موقع پر پہنچنے والی ایک ایمبولینس نے اسپتال منتقل کیا تھا جہاں ڈاکٹروں نے اس کی موت کی تصدیق کی تھی۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق فلائیڈ کی موت دم گھٹنے سے ہوئی۔

ایک عینی شاہد کی جانب سے بنائی گئی واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد اس واقعے کے خلاف منیاپولس میں مظاہرے شروع ہوگئے تھے جنہوں نے اب پورے امریکہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ مشتعل مظاہرین نے احتجاج کے دوران کئی مقامات پر پولیس کی گاڑیوں کو نذرِ آتش بھی کیا ہے اور بعض مقامات پر املاک کو نقصان بھی پہنچایا ہے۔

احتجاج کی شدت بڑھنے پر حکام نے 40 شہروں میں رات کا کرفیو نافذ کر دیا تھا جس کے دوران نیویارک سمیت دیگر شہروں میں ایک مقامات پر لوٹ مار کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے۔

XS
SM
MD
LG