امریکہ میں کرونا وائرس کی وبا میں بظاہر بہتری دیکھنے میں نہیں آرہی، وائٹ ہاؤس نے اندازہ لگایا ہے کہ اگست کے شروع تک ملک میں ساٹھ ہزار کے قریب افراد لقمہ اجل بن جائیں گے۔ یہ تعداد اس اکیاسی ہزار سے کچھ کم ہے جس کا اندازہ پہلے لگایا گیا تھا۔
اس پس منظر میں ماہرین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ صحت کے اس بحران میں حکومت کی جانب سے شفافیت نہایت ضروری ہے۔ تاہم، ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کسی بھی عالمی وبا کی صورت میں بالکل درست اندازے لگانا مشکل ہے۔
امریکہ میں اب تک کی صورتِ حال کے مطابق، نیویارک کا پر رونق شہر سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے لئے وائس آف امریکہ کی نامہ نگار پیٹسی ویڈہ کوسوارا نے اپنی رپورٹ میں اس شہر کا ایک ہولناک منظر بیان کیا ہے کہ طبی کارکنوں کو بڑے بڑے ٹرک میں جو ریفریجریٹر کی سہولتوں سے لیس ہیں، لاشیں اٹھاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس لئے کہ ہلاک شدگان کی تعداد میں مستقل اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ ٹرک عارضی مردہ خانوں کا کام دے رہے ہیں۔
صحت کے ماہرین انتباہ کر رہے ہیں فی الوقت اس بات کی ضرورت ہے کہ بدترین حالات کے لیے خود کو تیار رکھا جائے۔
وائٹ ہاؤس نے کرونا وائرس کی وبا کے سلسلے میں متعدد یونیورسٹیز سے رابطہ کیا ہے، جن میں بوسٹن میں یونیورسٹی آف ٹیکسس شامل ہے۔ یونیورسٹی کی ریسرچ ٹیم کی سربراہ نے بھی اس جانب توجہ دلائی ہے کہ عالمی وبا کے بارے میں قبل از وقت کچھ کہنا موسم کی پیشگوئی جیسا نہیں ہے۔
بین الااقوامی اور فوجی امور سے متعلق مرکز سے منسلک تجزیہ کار ڈینیل رنڈے کہتے ہیں کہ بہت سے ملکوں کے پاس صحیح طور پر اعداد و شمار جمع کرنے اور شفافیت کے لیے سیاسی عزم کا فقدان ہوتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ اس بات کے لیے غلط وقت ہے کہ اعداد و شمار کے بارے میں کسی قسم کی بھی غلط بیانی کی جائے اور سائنسی معلومات سے اجتناب برتا جائے اور ذرائع ابلاغ کے خلاف سنسر شپ عائد کردی جائے۔
ماہرین اس جانب توجہ دلاتے ہیں کہ موجودہ عالمی وبا کی ابتدا میں جنوبی کوریا سب سے زیادہ متاثرہ ملکوں میں شامل تھا۔ تاہم، اس نے اس کے مقابلے کے لیے نہایت موثر اور جارحانہ انداز اختیار کیا جسے دنیا بھر میں سراہا گیا۔ ان اقدامات میں خاص طور پر عوام سے مستقل رابطے کے لیے شفافیت کا خیال رکھا گیا، تاکہ انھیں بروقت صحیح معلومات اور ہدایات ملتی رہیں۔
تجزیہ کاروں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس ابتلا کے دور میں حقائق پر پردہ ڈالنے سے گریز اور معمولات کو نہایت شفاف رکھنا بہت اہم ہے اور دوسرے طبی اور حفاظتی اقدامات کے علاوہ انھیں بھی حکمت عملی کا حصہ بنایا جانا چاہیے۔