وفاقی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی پیر سے کرونا وائرس کی طویل بندشوں کے بعد کاروبار حیات کو کھولنے کے دوسرے مرحلے میں داخل ہوگا۔
یہ فیصلہ کرونا وائرس کے پھیلاؤ میں مسلسل دو ہفتے کی کمی کے بعد کیا گیا ہے۔ جمعہ کو اس بات کا اعلان کرتے ہوئے شہر کی میئر میریل باوزر نے کہا کہ شہریوں کو اس سلسلے میں جاری کی گئی سماجی فاصلے رکھنے جیسی صحت عامہ کی احتیاطی تدابیر پر عمل پیرا ہونا ہوگا۔
کئی ماہ سے عائد پابندیوں میں نرمی کے بعد عام اشیا فروخت کرنے والے اسٹور اب اپنے کاروبار چلانے کی نصف گنجائش کے مطابق عوام کے لیے کھولے جا سکیں گے۔ ریستوران کو اجازت ہوگی کہ وہ اپنے معمول کی 50% گنجائش تک گاہکوں کو عمارت کے اندر کھانا پیش کر سکتے ہیں۔
گزشتہ ماہ پابندیوں میں نرمی کے پہلے مرحلے میں ریستوران کو صرف عمارت کے پیٹیو یا آنگن میں کھانا پیش کرنے کی اجازت تھی۔ دوسرے مرحلے میں بھی ریستوران مالکوں کو اس بات کا خیال رکھنا ہوگا کہ گاہکوں کے بیٹھنے کی جگہ میں کم از کم 6 فٹ کا فاصلہ ہو اور گاہکوں کے اکٹھا ہونے کی صورت میں کسی بھی گروپ کی تعداد چھ سے زیادہ نہ ہو۔
دوسرے مرحلے میں شہر کو دوبارہ کھولنے کی ہدایات کے مطابق لوگوں کو ایک مقام پر 50 افراد تک کے مجمع کی اجازت ہوگی۔ عبادت گاہوں میں دعا کے لیے ایک وقت میں 100 افراد تک جمع ہو سکتے ہیں۔
اسی طرح شہر کے عجائب گھروں اور آرٹ گیلریوں کو ایک محتاط اور محدود انداز میں کھولنے کی اجازت ہوگی۔ چھوٹے کاروبار کھولنے کی بھی اجازت ہوگی۔ لیکن تمام شہریوں اور کاروباری مالکان کو پہلے ہی سے واضح کردہ احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا ہوگا۔
پیر کو پابندیوں میں نرمی کے بعد واشنگٹن ڈی سی سے جڑی ہوئی میری لینڈ اور ورجینیا ریاستوں سمیت پورا خطہ کرونا وائرس کی پابندیوں کے بعد اقتصادی کارروائیاں کھولنے کے دوسرے مرحلے میں داخل ہوگا۔
کاروباری حلقوں اور عام شہریوں کے لیے یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ ایک طرف کرونا وائرس کے پھیلاؤ پر قابو پایا جا رہا ہے؛ دوسری طرف اقتصادی سرگرمیاں کھولنے سے زندگی کو معمول پر لانے میں مدد ملے گی۔
شہری خاص طور پر اس بات پر خوش اور پرامید نظر آتے ہیں کہ موسم گرما کے آغاز پر کاروبار اور ٹرانسپورٹ کھولے جانے سے واشنگٹن میں کئی رونقیں واپس آئیں گی اور اربوں ڈالر کی سیاحت کے فروغ کے امکانات بھی زیادہ ہوں گے۔ یوں زندگی کو پھر سے رواں دواں کرنےکے مواقع پیدا ہوں گے۔
ثروت پرویز، جو جانز ہاپکنز یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری کے حصول کے قریب ہیں، کا کہنا ہے کہ ایک طرف تو ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہم ڈی سی میں زندگی کی تمام تر رعنایاں پھر سے واپس آتی دیکھیں اور دوسری طرف ہمیں اس بات کا خیال بھی ہے کہ پہلے ہمیں اپنے ٓآپ کو ایک نئے انداز میں ڈھالنا ہوگا۔
انھوں نے کہا کہ جیسے ہم نے اپنے آپ کو لاک ڈاون کے دوران آن لائن کام میں ڈھال دیا، اسی طرح ایک بھرپور زندگی کی جانب واپس آنے کے لیے ایک دوسرے کی بہتری کا خیال کرتے ہوئے آگے بڑھنا ہوگا۔
صحت عامہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ خطے کے لوگوں کے لئے ایک بڑا امتحان ہوگا کہ وہ اس موقع سے کس طرح مستفید ہوتے ہیں۔
ورجینیا میں الیگزینڈریا کے آئینووا ہسپتال میں ایمرجنسی شعبہ کے سربراہ ڈاکٹر راشد نیر کہتے ہیں کہ اگرچہ اِس خطہ میں کووڈ نائنٹیں کے کیسز میں نمایاں کمی ہوئی ہے، اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ لوگ احتیاطی تدابیر چھوڑ دیں۔
بقول ان کے، آئندہ کئی مہینوں تک ہمیں اسے ایک ایسا نیا معمول بنانا چاہیے جس میں ہم سماجی فاصلوں اور چہرے پر ماسک پہننے والی احتیاطی تدابیر کو اپناتے ہوئے زندگی کے مختلف شعبوں کی طرف واپس لوٹیں۔