|
نئی دہلی -- بھارتی شہر اجمیر کی سول عدالت نے اجمیر درگاہ پر ہندو تنطیم کے دعوے کی سماعت کرتے ہوئے تین فریقوں کو نوٹسز جاری کر دیے ہیں۔
ہندو مذہبی تنظیم ’ہندو سینا‘ نے ریاست راجستھان کے شہر اجمیر کی سول عدالت میں درخواست دائر کی تھی جس میں صوفی بزرگ خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ کے سنکٹ موچن مہادیو مندر ہونے کا دعویٰ کیا اور درگاہ کا سروے کرائے کا مطالبہ کیا تھا۔
سول کورٹ (ویسٹ) کے جج من موہن چندیل نے تنظیم کے صدر وشنو گپتا کی درخواست کو سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے بدھ کو اجمیر درگاہ کمیٹی، اقلیتی امور کی وزارت اور محکمہ آثار قدیمہ کو نوٹس جاری کر دیا ہے۔ ہندو سینا نے ستمبر میں درخواست داخل کی تھی۔ اس معاملے پر اگلی سماعت 20 دسمبر کو ہو گی۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ اگر درگاہ کے تعلق سے کوئی رجسٹریشن کرائی گئی تو اسے منسوخ کیا جائے اور وہاں ہندوؤں کو پوجا کرنے کی اجازت دی جائے۔
درخواست گزار نے 1910 میں شائع ہونے والی ہر وکاس شاردا کی ایک کتاب کا حوالہ دیا جس میں کہا گیا ہے کہ روایات کے مطابق درگاہ کی تعمیر سے قبل وہاں ایک مندر تھا۔ لہٰذا اس کی تصدیق کے لیے محکمہ آثارِ قدیمہ سے سروے کرائے جانے کی ضرورت ہے۔
اجمیر کی درگاہ کمیٹی کے سیکریٹری سید سرور چشتی کا کہنا ہے کہ مسلمانوں نے بابری مسجد کے سلسلے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کو کڑوا گھونٹ سمجھ کر پی لیا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ اب ایسا کوئی تنازع پیدا نہیں ہو گا۔ انھوں نے درگاہ کو تمام مذاہب کے ماننے والوں کی عقیدت کا مرکز قرار دیا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں آل انڈیا صوفی سجادہ نشین کونسل کے صدر اور درگاہ کے سجادہ نشین کے جانشین سید نصیر الدین چشتی نے مذکورہ دعوے کو بے بنیاد قرار دیا اور کہا کہ ہم اس کا جواب قانونی طور پر دیں گے۔
انھوں نے کہا کہ 1910 کی جس کتاب کا حوالہ دیا جا رہا ہے اس میں بے بنیاد دعویٰ کیا گیا ہے۔ اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ اس کی بنیاد پر ساڑھے سات سو سال کی تاریخ کو بدلا نہیں جا سکتا۔
انھوں نے کہا کہ حکومت کے ذمہ داروں اور متعدد سیاست دانوں کی جانب سے ہر سال عرس کے موقع پر درگاہ پر چادریں چڑھائی جاتی ہیں۔
یاد رہے کہ وزیرِ اعظم نریندر مودی نے رواں سال جون میں نئی دہلی میں مسلمانوں کے ایک نمائندہ وفد سے ملاقات کی اور درگاہ پر چڑھانے کے لیے چادر پیش کی تھی۔ انھوں نے اس سلسلے میں سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ بھی لکھا تھا۔ وہ پہلے بھی چادر پیش کرتے رہے ہیں۔
سید نصیر چشتی نے مزید کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس سلسلے کو روکے اور ایک گائیڈ لائن جاری کرے۔ انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ 1991 کے عبادت گاہ قانون کا احترام کیا جانا چاہیے۔
آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے صدر اور رکن پارلیمان اسد الدین اویسی نے مذہبی مقامات کی ہیئت تبدیل کرنے کی کوششوں پر سخت تنقید کی اور عدالتوں سے اپیل کی کہ وہ 1991 کے عبادت گاہ قانون کو نافذ کریں۔
SEE ALSO:
بھارت: سنبھل کی جامع مسجد کے سروے کے خلاف احتجاج میں چار افراد ہلاکبھارت کی سنبھل مسجد کا تنازع ہے کیا؟یاد رہے کہ جب بابری مسجد کا تنازع بہت زیادہ بڑھ گیا تھا تو 1991 میں اس وقت کی کانگریس حکومت نے پارلیمان سے ایک قانون منظور کرایا تھا جس میں کہا گیا ہے کہ 1947 میں جو عبادت گاہ جس شکل میں تھی اسی شکل میں رہے گی اس میں تبدیلی نہیں کی جا سکتی اور اس کو کسی دوسرے مذہب کی عبادت گاہ میں بدلا نہیں جا سکتا۔
البتہ بابری مسجد کو اس قانون سے مستثنیٰ کر دیا گیا تھا۔ اس کا مقصد مسلم عبادت گاہوں اور مذہبی مقامات پر ہندو تنظیموں کے دعوؤں پر روک لگانا تھا۔ اس قانون کی منظوری کے اگلے سال ہی بابری مسجد منہدم کر دی گئی تھی۔
اسد الدین اویسی نے سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا کہ ہندو تنظیمیں مذکورہ قانون کی خلاف ورزی کر رہی ہیں۔ یہ عدلیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس قانون کو نافذ کرے۔ انھوں نے اس سلسلے میں وزیرِ اعظم نریندر مودی کی خاموشی پر تنقید بھی کی۔
انھوں نے کہا کہ عقیدت مند صدیوں سے خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ کی زیارت کر رہے ہیں اور مذہب کی بنیاد پر عوام کو تقسیم کرنے والے ایسے مطالبات کے باوجود وہ امن و یک جہتی کی علامت بنی ہوئی ہے۔
عام آدمی پارٹی کے رکن پارلیمان سنجے سنگھ نے کہا کہ سپریم کورٹ کو اس معاملے میں مداخلت کر کے اس سلسلے کو رکوانا چاہیے۔ ورنہ پورے ملک میں ہر مسجد کے نیچے مندر اور ہر مندر کے نیچے مسجد کا دعویٰ کیا جانے لگے گا اور ملک میں ایک لڑائی چھڑ جائے گی۔
یاد رہے کہ ایسی درخواست پہلی بار داخل نہیں کی گئی ہے۔ گزشتہ سال فروری میں ایک دوسری ہندو تنظیم ’مہارانا پرتاپ سینا‘ نے درگاہ کے سروے کا مطالبہ کیا تھا۔
تنظیم کے صدر راجیہ وردھن سنگھ پرمار نے وزیر اعلیٰ بھجن لال کے نام ایک خط میں لکھا تھا کہ سابق کانگریسی وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت نے ہندوؤں کا مطالبہ مسترد کر دیا تھا۔
واضح رہے کہ ہندو تنظیموں کی جانب سے یہ دعویٰ کیا جاتا رہا ہے کہ ہزاروں مسجدوں کی تعمیر مندروں کو توڑ کر ہوئی ہے اور وہ ان کو بازیاب کرائیں گی۔
حالیہ دنوں میں یہ سلسلہ تیز ہو گیا ہے۔ سال 2023 میں وارانسی کی گیان واپی مسجد کے سروے اور اس کے تہہ خانے میں پوجا کی اجازت دینے کے عدالتی حکم کے بعد شاہی عیدگاہ متھرا کے سروے کی درخواست منظور کر لی گئی ہے۔
ادھر سپریم کورٹ کے ایک وکیل اور بعض ہندوؤں نے سنبھل کی شاہی جامع مسجد پر مندر ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے 19 نومبر کو ایک مقامی عدالت میں درخواست دائر کی جس پر عدالت نے اسی روز سماعت کر کے مسجد کے سروے کا حکم دیا اور اسی روز سروے بھی کر لیا گیا۔
ایڈووکیٹ کمشنر جب ایک ٹیم کے ساتھ 24 نومبر کو دوبارہ سروے کے لیے پہنچے تو وہاں تشدد پھوٹ پڑا جس میں پانچ افراد ہلاک ہو گئے۔
ایسے دعوؤں میں تیزی کیوں آ رہی ہے؟
تجزیہ کار اور قانونی ماہرین مسجدوں پر دعوے اور عدالتوں کی جانب سے ان کے سروے کا حکم دینے کے معاملے میں اچانک تیزی آجانے کی ذمہ داری سابق چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ پر ڈالتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انھوں نے اگر گیان واپی مسجد کے سروے کی اجازت نہ دی ہوتی تو یہ نوبت نہیں آتی۔
یاد رہے کہ وارانسی کے مسلمانوں نے سروے کرانے کے مقامی عدالت کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا جسے جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے خارج کرتے ہوئے سروے کی اجازت دے دی تھی۔
دہلی یونی ورسٹی کے شعبہ ہندی میں استاد اور سینئر تجزیہ کار پروفیسر اپوروانند نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اگر جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ سروے کی اجازت نہ دیتے تو معاملہ وہیں دب جاتا۔
انھوں نے کہا کہ جب عدالت کوئی فیصلہ سناتی ہے تو وہ قانون بن جاتا ہے۔ لہٰذا جسٹس چندر چوڑ کا وہ فیصلہ ایک نظیر بن گیا اور اب نچلی عدالتیں ایسی درخواستوں کو قبول کرنے لگی ہیں۔
یاد رہے کہ جسٹس چندر چوڑ نے سروے کی اجازت دیتے ہوئے کہا تھا کہ قانون میں عبادت گاہ کی ہیئت تبدیل نہ کرنے کی بات کہی گئی ہے۔ سروے کرنے سے ہیئت تبدیل نہیں ہو گی صرف یہ جاننے کی کوشش کی جائے گی کہ اس جگہ پہلے کیا تھا۔
پروفیسر اپوروانند کے مطابق سروے کے بعد گیان واپی مسجد کا وضو خانہ سیل کر دیا گیا اور اس کے تہہ خانے میں یومیہ پوجا کی اجازت دے دی گئی اس سے مسجد کی ہیئت تبدیل ہو گئی ہے۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ ایسی درخواستوں کے سلسلے میں عدلیہ کو سخت مؤقف اختیار کرنا ہو گا ورنہ اس بات کا اندیشہ ہے کہ یہ سلسلہ اور تیز ہو گا اور پورے ملک میں بدامنی پیدا ہو جائے گی۔
اپوروانند یہ بھی کہتے ہیں کہ دراصل آر ایس ایس نے ہندوؤں کے ذہن میں یہ بات بٹھا دی ہے کہ ملک میں جتنی مسجدیں اور مسلمانوں کے مذہبی مقامات ہیں وہ پہلے ہندوؤں کے مذہبی مقامات تھے۔
یہی وجہ ہے کہ کبھی تاج محل پر دعویٰ کیا جاتا ہے تو کبھی قطب مینار پر اور کبھی کسی تاریخی مسجد پر۔ وہ لوگ ہر اس عمارت کو بدلنا چاہتے ہیں جس سے اسلامی یا مسلم شناخت ظاہر ہوتی ہو۔
ہندو تنظیم کی جانب سے پیش ہونے والے وکیل ایڈووکیٹ یوگیش سرولیا نے کہا کہ عدالت نے ان کے موکل کی درخواست کو سماعت کے لیے منظور کر لیا ہے اور اس پر نوٹس بھی جاری کر دیے گئے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ قانونی ٹیم نے سابق جوڈیشل آفیسر اور ماہر تعلیم ہربلاس شاردا کی اجمیر سے متعلق تاریخی کتاب کی ایک کاپی عدالت میں جمع کرائی ہے۔ جس میں مبینہ طور پر کہا گیا ہے کہ درگاہ کی تعمیر میں پہلے سے موجود ایک شیومندر کی باقیات استعمال کی گئی ہیں۔
دوسرے وکیل رام سوروپ بشنوئی نے کہا کہ ہم نے عدالت کو بتایا کہ مندر کے انہدام تک وہاں پوجا ہوتی رہی ہے۔ تیسرے وکیل وجے شرما نے کہا کہ اس دعوے کی جانچ کے لیے کہ درگاہ کی تعمیر میں مندر کا ملبہ استعمال ہوا ہے، عدالت سے محکمہ آثارِ قدیمہ سے تحقیقات کرائے جانے کی درخواست کی گئی ہے۔
درخواست میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ یہ درگاہ ایک شیو مندر کی جگہ پر تعمیر کی گئی ہے۔ یہ بات مصدقہ ذرائع سے حاصل حقائق کی بنیاد پر کئی گئی ہے۔
پٹیشن کے مطابق خواجہ معین الدین چشتی محمد غوری کے ساتھ اجمیر آئے تھے۔ غوری نے ہندو حکمراں پرتھوی راج چوہان کو قتل کرنے کے بعد اجمیر کے سنکٹ موچن مہادیو مندر سمیت بڑی تعداد میں ہندو مندروں کو توڑا تھا۔
ہندو سینا کا دعویٰ ہے کہ درگاہ کا صدر دروازہ ہندو تعمیرات کے مشابہ ہے اور تاریخی شواہد سے اس مقام پر مندر ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔