|
امریکہ میں یہ ایک لانگ ویک اینڈ کا آغاز ہے یعنی ایک ساتھ چار چھٹیاں جن میں امریکی اپنے اہل خانہ کے ساتھ مل کر دعوتیں اڑاتے ہیں، دور دراز سفر کرتے ہیں اور نیویارک کے شہریوں کو اس دن ایک خصوصی پریڈ کا انتظار بھی ہوتا ہے۔
یہ ساری چہل پہل اور رنگا رنگی ہر سال نومبر کی چوتھی جمعرات کو منائے جانے والے امریکی تہوار 'تھینکس گیونگ' یا یومِ تشکر کی وجہ سے ہوتی ہے۔
اس تہوار کی سب سے نمایاں روایت اہلِ خانہ سے میل ملاپ اور ان کے ساتھ مل بیٹھنا اور کھانے کی دعوتیں ہیں۔ فیملی اور عزیز و اقارب سے ملاقاتوں کے لیے اس موقعے پر امریکیوں کی بڑی تعداد سفر کرتی ہے۔
امریکن آٹوموبیل ایسوسی ایشن (اے اے اے) کے مطابق گزشتہ برس سات کروڑ 80 لاکھ افراد نے کم از کم 80 کلو میٹر سفر کیا تھا جو اس تنظیم کے اندازوں سے بھی زیادہ تھا۔
اس سال اے اے اے نے اندازہ ظاہر کیا ہے کہ تھینکس گیونگ پر سفر کرنے والوں کی تعداد آٹھ کروڑ تک پہنچ جائے گی۔ اس بڑے پیمانے پر سفر کی وجہ سے تہوار کی خوشیوں میں ٹریفک کی ہنگامہ خیزی اور پروازوں کی تاخیر جیسے مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔
امریکی اس تہوار کے لیے اتنے پُرجوش کیوں ہوتے ہیں اور اس کی کئی روایات آج بھی انہیں اتنی عزیز کیوں ہیں؟ اسے سمجھنے کے لیے اس تہوار کی تاریخ جاننا ضروری ہے۔
تھینکس گیونگ کیا ہے؟
تھینکس گیونگ امریکہ کا سب سے بڑا ثقافتی تہوار ہے جس کا تعلق امریکہ کی تاریخ سے بھی ہے۔
یہ تہوار صدیوں سے امریکہ میں اچھی فصل کی کاشت کی خوشی میں جشن کے طور پر منایا جاتا ہے۔
بعض روایات کے مطابق 1621 میں امریکہ آنے والے تارکینِ وطن برطانوی باشندوں نے کھیتی باڑی سکھانے والے آبائی امریکی باشندوں کے اعزاز میں دعوت کا اہتمام کیا تھا جس کے بعد یہ سلسلہ چل نکلا۔
ابتدا میں مختلف امریکی ریاستیں مختلف دنوں میں تھینکس گیونگ کا تہوار مناتی تھیں۔ لیکن امریکی صدر ابراہم لنکن نے 1863 میں ہر سال نومبر کی آخری جمعرات کو 'تھینکس گیونگ ڈے' قرار دیا۔
بعد ازاں 1942 میں صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ کے دور میں کانگریس نے ایک قانون کے ذریعے ہر سال نومبر کی چوتھی جمعرات کو 'تھینکس گیونگ ڈے' مقرر کیا جس کے بعد سے ہر سال اب نومبر کی چوتھی جمعرات کو یہ تہوار منایا جاتا ہے۔ اس روز امریکہ بھر میں عام تعطیل ہوتی ہے۔
اس تہوار کو امریکہ میں تعطیلات کے موسم کا آغاز بھی سمجھا جاتا ہے جو سالِ نو کے آغاز تک جاری رہتا ہے۔
تھینکس گیونگ کے بعد کرسمس کی تیاریوں میں بھی تیزی آ جاتی ہے اور اس تہوار سے قبل اور اس کے دوران لوگوں کی ایک بڑی تعداد خرید و فروخت اور تعطیلات منانے کے لیے گھروں سے نکلتی ہے۔
اس دن ملک بھر کے شہروں اور قصبوں میں قومی یکجہتی کے اظہار کے لیے پریڈیں ہوتی ہیں۔ اس روز لوگ مل کر ٹی وی شوز اور کھیلوں کے مقابلے دیکھنے کا بھی خاص اہتمام کرتے ہیں۔
کچھ لوگ رضا کارانہ کاموں میں دن گزارتے ہیں اور غریب طبقات میں تحائف اور کھانا تقسیم کرتے ہیں۔
’ٹرکی‘ پکے گی تو سب میں بٹے گی
تھینکس گیونگ کی ایک اور بڑی علامت یہ ہے کہ اس دن دسترخوانوں پر بھنی ہوئی ’ٹرکی‘ ضرور ہوتی ہے۔
مرغی نما یہ بڑا پرندہ 'تھینکس گیونگ' کی خاص ڈش سمجھا جاتا ہے اور اسے بڑے اہتمام سے تیار کیا جاتا ہے۔
ٹرکی دنیا کے معتدل موسم والے ممالک میں پائی جاتی ہے۔ اس پرندے میں گوشت کی مقدار بھی مرغی کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوتی ہے۔
امریکی ریاست آئیووا میں ٹرکی کی افزائش کے کئی مراکز قائم ہیں۔
ٹرکی دسترخوان پر کیسے آئی؟
ٹرکی شروع سے اس تہوار کا لازمی حصہ نہیں تھی اور اسے یہ مقام دلانے کا سہرا ایک امریکہ مصنفہ سارا جوزفہ ہیل کے سر جاتا ہے۔
انہوں نے 1827 میں شائع ہونے والے اپنے ایک ناول ’نارتھ ووڈ‘ میں نیو انگلینڈ کہلانے والے امریکہ کے شمال مشرقی حصے میں تھینکس گیونگ کی روایات کی منظر کشی کی تھی۔
اس ناول میں انہوں نے دسترخوان پر بھنی ہوئی ٹرکی سے متعلق پورا ایک باب لکھا اور ایسی تصویر کھینچی جس نے پڑھنے والوں کے ذہنوں پر ان مٹ نقوش چھوڑے اور رفتہ رفتہ یہ پکوان اس تہوار کی پہچان بن گیا۔
لیکن انسائیکلو پیڈیا آف بریٹینکا کے مطابق ٹرکی کے تھینکس گیونگ کے دسترخوان پر آنے کی ایک بڑی وجہ اس کا سستا ہونا بھی ہے۔ اس دور میں ٹرکی ایک جنگلی پرندہ تھا اور وقت کے ساتھ ساتھ اس کی تعداد بہت کم بھی ہوگئی۔ تاہم بعد میں اس کی فارمنگ شروع ہوئی اور یہ مسئلہ بھی حل ہوگیا۔
ایک وجہ یہ بھی ہے کہ تھینکس گیونگ پر فیملی کی بڑی دعوتیں ہوتی ہیں اور ٹرکی میں گوشت زیادہ ہوتا ہے اور اس کی قیمت کم ہوتی ہے۔
اس حوالے سے وائٹ ہاؤس میں ایک روایتی تقریب کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے جس میں امریکی صدر ایک تقریب میں ایک ٹرکی کی جان بخشی کر کے اسے آزاد کر دیتے ہیں۔ یہ روایت کئی عشروں سے امریکہ میں چلی آ رہی ہے۔