پاکستان کی سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ صدر آصف علی زرداری کے خلاف سوئٹرزلینڈ میں قائم مبینہ بدعنوانی کے مقدمات کو دوبارہ کھولنے کے لیے اگر خط لکھ دیا جائے تو توہین عدالت کے معاملے پر وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو جاری کیا گیا اظہار کا وجوہ نوٹس واپس لے لیا جائے گا۔
مسٹر گیلانی پر توہین عدالت کے الزام میں فرد جرم عائد کرنے کے عدالتی فیصلے کے خلاف ’انٹرا کورٹ‘ اپیل کی جمعرات کو عدالت عظمیٰ کے آٹھ رکنی بینچ کے سامنے سماعت کے دوران چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا کہ حکومت کی جانب سے سوئس حکام کو خط لکھنے میں مزید تاخیر نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔
اُنھوں نے وزیراعظم گیلانی کے وکیل اعتزاز احسن کی تیار کردہ 200 صفحات پر مشتمل اپیل میں عدلیہ سے متعلق اُن حوالوں پر بھی اعتراضات اُٹھائے جن میں جج صاحبان کی رہائی اور بعد ازاں بحالی کے علاوہ سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف توہین عدالت کا ذکر کیا گیا تھا۔
چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کا کہنا تھا کہ ان حوالوں سے بظاہر یہ تاثر ملتا ہے کہ مسٹر گیلانی اپنے اقدامات کے بدلے میں عدالت سے ریلیف چاہتے ہیں۔
لیکن اعتزاز احسن نے اپنے موکل کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ججوں کی بحالی سے متعلق مسٹر گیلانی کے فیصلوں کا ذکر کرنے کا مقصد عدالتی کارروائی پر ہرگز اثر انداز ہونا نہیں۔ اُنھوں نے عدالت سے استدعا کی کہ متعلقہ مندرجات کو اپیل سے حذف کر دیا جائے، جس کو قبول کر لیا گیا۔
مقدمے کی سماعت جمعہ تک ملتوی کر دی گئی اور وکیل صفائی کو دن 11 بجے تک اپنے دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
اس سے قبل جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے سات رکنی بینچ نے 2 فروری کو جاری کیے گئے اپنے حکم نامے میں وزیراعظم گیلانی پر 13 فروری کو فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے انھیں عدالت کے روبرو پیش ہونے کی ہدایت کی تھی۔
اعتزاز احسن نے اپنے موکل کی جانب سے بدھ کو ’انٹرا کورٹ‘ اپیل دائر کی تھی جس میں عدالتی فیصلے پر 50 سے زائد قانونی اعتراضات اٹھائے تھے۔
متنازع قومی مصالحتی آرڈیننس یا این آر او کو کالعدم قرار دینے سے متعلق عدالت عظمٰی کے فیصلے پر عمل درآمد میں تاخیر کی پاداش میں سپریم کورٹ نے وزیراعظم گیلانی کو اس سے قبل 19 جنوری کو طلب کیا تھا جس کو بجا لاتے ہوئے وہ عدالت میں پیش بھی ہوئے تھے۔