اسلامی نظریاتی کونسل کے نئے ضابطہ اخلاق میں خاص بات کیا ہے؟

اسلامی نظریاتی کونسل کے ضابطۂ اخلاق میں کہا گیا ہے کہ ہر فرد ریاست کے خلاف تعصبات کی بنیاد پر چلنے والی تحاریک کا حصہ بننے سے گریز کرے۔ ریاست تعصب رکھنے والے گروہوں کے خلاف سخت کارروائی کرے گی۔

پاکستان میں مذہبی منافرت کو روکنے کے حوالے سے اسلامی نظریاتی کونسل نے مختلف مکاتبِ فکر کے علما کا مشترکہ 20 نکاتی ضابطۂ اخلاق جاری کیا ہے۔

اسلامی نظریاتی کونسل کے ضابطۂ اخلاق میں کہا گیا ہے کہ ہر فرد ریاست کے خلاف تعصبات کی بنیاد پر چلنے والی تحاریک کا حصہ بننے سے گریز کرے۔ ریاست تعصب رکھنے والے گروہوں کے خلاف سخت کارروائی کرے گی۔

یہ ضابطۂ اخلاق ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پاکستان کی حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے رہنماؤں کے خلاف عوام کو ریاست کے خلاف اکسانے کے الزامات کے تحت مقدمات درج کیے جا رہے ہیں۔

اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین قبلہ ایاز کا دستخط سے جاری کردہ ضابطۂ اخلاق کے حوالے سے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ضابطۂ اخلاق پر تمام مسالک کے جید علماء کا اتفاق رائے ہے۔

ضابطہ اخلاق میں ہے کیا؟

اسلامی نطریاتی کونسل کے 20 نکاتی ضابطۂ اخلاق کے مطابق ملک میں غیر ملکی شہریوں کو مذہبی رسومات کی ادائیگی اپنے مذہبی عقائد کے مطابق کرنے کا حق حاصل ہے۔ خواتین سے ووٹ، تعلیم اور روزگار چھیننے کا حق کسی شخص کو حاصل نہیں ہے۔

ضابطۂ اخلاق میں غیرت کے نام پر قتل، قرآن پاک سے شادی، ونی، کاروکاری اور وٹہ سٹہ کی شادیوں کو اسلام کی روح کے منافی قرار دیا گیا ہے۔

یہ بھی کہا گیا ہے کہ کوئی شخص مسجد، منبر، مجالس اور امام بارگاہوں میں نفرت انگیزی پر مبنی تقاریر نہیں کرے گا۔ فرقہ وارانہ موضوعات پر قومی اور سوشل میڈیا پر گفتگو کی ممانعت ہوگی۔

ضابطۂ اخلاق میں مزید کہا گیا ہے کہ ہر فرد ریاست کے خلاف تعصبات کی بنیاد پر چلنے والی تحریکوں کا حصہ بننے سے گریز کرے۔ ریاست تعصب رکھنے والے گروہ کے خلاف سخت کارروائی کرے۔

SEE ALSO: پاکستان میں مختلف مسالک کی ریلیاں، کیا فرقہ واریت کو ہوا مل رہی ہے؟

فرقہ واریت کے خاتمہ کے لیے کہا گیا ہے کہ کوئی شخص فرقہ وارانہ نفرت اور جبراََ اپنے نظریات کسی دوسرے پر مسلط نہ کرے۔ کوئی نجی، سرکاری یا مذہبی تعلیمی ادارہ عسکریت پسندی کی تبلیغ نہ کرے۔ عسکریت کی تعلیم دینے والوں کے خلاف سخت کارروائی ہوگی۔

ضابطۂ اخلاق میں کہا گیا ہے کہ تمام شہریوں کا فرض ہے کہ ریاست کے ساتھ وفاداری کے حلف کو نبھائیں۔ تمام شہری دستورِ پاکستان میں درج بنیادی حقوق کے احترام کو یقینی بنائیں۔ دستور پاکستان کی اسلامی ساخت اور قوانین پاکستان کا تحفظ کیا جائے گا۔

یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان کے شہریوں کا حق ہے کہ شریعت کے نفاذ کے لیے پرامن جہد و جہد کریں۔ اسلام کے نفاذ کے نام پر جبر کا استعمال غلط ہے۔ تشدد اور انتشار کی تمام صورتیں بغاوت سمجھیں جائیں گی۔

ضابطہ اخلاق کے مطابق کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ مسلح افواج کے افراد سمیت کسی کو کافر قرار دے۔

اسلامی نظریاتی کونسل کے ضابطۂ اخلاق کے مطابق تمام مکاتب فکر کا حق ہے کہ وہ اپنے مسالک اور عقائد کی تبلیغ کریں۔ کسی کو نفرت انگیزی اور اہانت پر مبنی جملوں یا بے بنیاد الزامات لگانے اور مقدس ہستیوں کی توہین کی اجازت نہیں ہوگی۔

ضابطۂ اخلاق کے مطابق کوئی فرد یا گروہ قانون کو ہاتھ میں نہیں لے گا۔ کوئی فرد یا گروہ توہین رسالت کے کیسز کی تفتیش یا استغاثہ میں رکاوٹ نہیں بنے گا۔

اس ضابطۂ اخلاق میں کہا گیا ہے کہ کوئی شخص کسی مسلمان کی تکفیر نہیں کرے گا۔ کسی کے بارے میں کفر کے مرتکب ہونے کا فیصلہ صادر کرنا عدالت کا دائرہ اختیار ہے۔ مسلمان کی تعریف وہی متعبر ہو گی جو دستورِ پاکستان میں ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

احتساب سب کے لیے ہونا چاہیے: مریم نواز

'ریاست کے خلاف بننے والی تحریکوں سے گریز کیا جائے'

ضابطۂ اخلاق میں کہا گیا ہے کہ ہر فرد ریاست کے خلاف تعصبات کی بنیاد پر چلنے والی تحاریک کا حصہ بننے سے گریز کرے۔ ریاست تعصب رکھنے والے گروہ کے خلاف سخت کارروائی کرے گی۔

یہ اعلامیہ ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب سابق وزیرِ اعظم نواز شریف اور ان کے 40 کے قریب ساتھیوں کے خلاف لاہور کے تھانہ شاہدرہ میں ریاست مخالف تقاریر کرنے کے الزام میں بغاوت پر اُکسانے کے الزامات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

اس مقدمے کے حوالے سے حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے مسلم لیگ(ن) پر غداری کے الزامات لگائے۔ تاہم بعد میں اس ایف آئی آر سے لاتعلقی اختیار کی۔

وفاقی وزیر فواد چوہدری سمت وزیر اطلاعات شبلی فراز نے بھی اس ایف آئی آر سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کا اس سے کوئی تعلق نہیں اور وہ غداری کے سرٹیفکیٹس پر یقین نہیں رکھتے۔

اسلامی نظریاتی کونسل کے ضابطۂ اخلاق کے بارے میں تجزیہ کار اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی ) کی زہرہ یوسف کہتی ہیں کہ یہ پاکستان میں پہلی مرتبہ نہیں ہو رہا کہ حکومت کی طرف سے مذہبی شخصیات کو استعمال کیا جا رہا ہو۔ ماضی میں بھی ایسی مثالیں موجود ہیں۔ جہاں مذہبی شخصیات کو حکومتوں نے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو اندازہ نہیں ہے کہ یہ کس قدر خطرناک ہو سکتا ہے۔ ماضی کی حکومت نے اسی پلیٹ فارم کو استعمال کیا اور اب یہ حکومت بھی یہی پلیٹ فارم استعمال کر رہی ہے۔

زہرہ یوسف نے کہا کہ آئینِ پاکستان ہر شخص کو آزادی اظہار رائے کی اجازت دیتا ہے۔

تجزیہ کار مظہر عباس کہتے ہیں کہ اسلامی نظریاتی کونسل کا یہ کام ہی نہیں ہے۔ ان کا کام قوانین کو دیکھنا ہے کہ وہ قرآن و سنت کے خلاف تو نہیں ہیں۔ بین المذاہب ہم آہنگی تک تو ٹھیک ہے لیکن ریاست کے خلاف تحریک پر بات کرنا ان کا مینڈیٹ نہیں ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

شہباز شریف گرفتار، ن لیگ کا انتقامی کارروائی کا الزام

ان کے بقول فی الحال تو یہ بھی دیکھنا ہے کہ یہ ریاست کے خلاف نہیں بلکہ حکومت کے خلاف تحریک ہے۔ بظاہر اس سے نظر آ رہا ہے کہ یہ اعلامیہ جے یو آئی اور مولانا فضل الرحمٰن پر دباؤ ڈالنے کے لیے ہے۔ کیوں کہ ان کے مدارس پاکستان بھر میں سب سے زیادہ ہیں۔ ایسے میں اسلامی نظریاتی کونسل کا ایسا اعلامیہ آنا ان ہی کے خلاف لگتا ہے۔

زہرہ یوسف کہتی ہیں کہ آئین میں ہر کسی کو آزادی اظہار رائے کا حق دیا گیا ہے۔ لہذا اگر کسی ایسے پلیٹ فارم سے ایسی آزادیوں پر قدغن لگائی جائے گی تو یہ خلاف آئین اور قانون ہو گی۔

اسلامی نظریاتی کونسل کیا کہتی ہے؟

اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین قبلہ ایاز کہتے ہیں کہ اس کی بنیادی سوچ یہ ہے کہ اس سال محرم میں کچھ مسائل ایسے آئے جو ماضی میں نہیں تھے۔ لہذا ہم نے فیصلہ کیا کہ مشترکہ طور پر ایسے نکات بنا لیں جو نفرت انگیزی اور منافرت کو روکنے کا کام کرے۔

ان کے مطابق وہ چاہتے ہیں کہ دوبارہ ایسا نہ ہو۔ کسی مذہبی شخصیت کی اہانت نہ ہو۔

انہوں نے کہا کہ اس کا مقصد تمام مسالک کے درمیان ہم آہنگی کو فروغ دینا ہے۔