کووڈ نائنٹین کے کچھ جگہوں پر کیسز کم ہونے سے اس وبا کے وائرس کے مہلک ہونے کی سنگینی میں کوئی کمی نہیں آئی۔ لہٰذا، لوگوں کو اس مرض سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر کو مسلسل جاری رکھنا ہوگا۔
طبی ماہرین نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے کوئی شواہد سامنے نہیں آئے کہ کرونا وائرس کے مہلک ہونے کی شدت میں کسی قسم کی کوئی کمی آئی ہو۔
عالمی ادارہ صحت اور طبی ماہرین نے اس بات کی اس وقت ضرورت محسوس کی جب اٹلی کے شہر میلان کے ہسپتال کے سربراہ البرٹو زنگریلو نے دعویٰ کیا کہ ان کے مشاہدے کے مطابق کچھ لوگوں کے سانس کی نالی میں کم درجے کے وائرس پائے گئے ہیں۔
امریکی اخبار دی واشنگٹن پوسٹ سے بات کرتے ہوئے، ڈاکٹر زنگیلو نے یہ مفروضہ پیش کیا کہ ہو سکتا ہے کہ وائرس اور انسانی سانس لینے کے ریسیپٹرز کے درمیان کچھ مختلف نوعیت کا انٹرایکشن واقع ہو رہا ہو۔ انہوں نے کہا کہ اس بات کو فی الوقت ثابت تو نہیں کیا جاسکتا، لیکن ہمارے کلینک کے مشاہدوں میں ڈرامائی طور پر بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔
اس بات پر تبصرہ کرتے ہوئے عالمی ادارہ صحت کے اہلکار کار مائیکل راین نے کہا کہ ''ہمیں اس مسئلے پر غیرمعمولی حد تک محتاط رویہ اپنانا چاہیے، تاکہ ہم ایسا تاثر نہ دیں کہ کرونا وائرس نے یکایک از خود یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ اب کم مہلک شکل اختیار کر لے گا۔ ایسا ہرگز نہیں ہے''۔
ماہرین کے مطابق، کرونا وائرس دوسرے وائرسوں کی مقابلے میں بہت دیر سے اپنی ہیئت بدلتا ہے، جبکہ اٹلی کے ڈاکٹر کی بات اس موذی مرض کے علاج معالجے اور انسانی رویوں میں تبدیلی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ مزید یہ کہ جب وائرس زیادہ پھیل رہا ہو تو اس کے اثرات زیادہ برے دکھائی دیتے ہیں نہ کہ وائرس از خود تبدیل ہو رہا ہوتا ہے۔
وائس آف امریکہ نے جب یہ سوال ماہرین کے سامنے رکھا تو انہوں نے کہا کہ یہ تاثر غلط اور قبل از وقت ہے کہ کرونا وائرس اب کم مہلک ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ وائرس بدستور اتنا ہی مہلک اور خطرناک ہے جیسے یہ پہلے تھا۔ صرف ایسا ہو رہا ہے کہ کچھ مقامات پر اس کے کیسز کی تعداد میں کمی آرہی ہے۔ لیکن، اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ یہ کم خطرناک یا کم مہلک ہو گیا ہے۔
ڈاکٹر راشد چھٹانی، جو وبائی امراض کے ماہر ہیں، نے کہا ہے کہ اگر موجودہ رجحانات کو دیکھا جائے تو برازیل میں اس وقت کووڈ نائنٹین کے کیسسز میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ دوسری جانب، نیویارک میں کیسز میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہر جگہ پر وبا کے پھیلاؤ کی سطح کا گراف مختلف ہوتا ہے اور ہمارے پاس کوئی ایسا سائنسی ثبوت نہیں ہے کہ کسی جگہ پر کیس کم ہونے کی وجہ سے وہاں وائرس کم مہلک ہو گیا ہے۔
عوام کی جانب سے احتیاطی تدابیر پر عملدرآمد کرنے کے ساتھ ساتھ حکومتی اور انتظامی اقدامات بھی اس موذی مرض کی روک تھام کے لیے ضروری ہیں۔
مثال کے طور پر، انہوں نے کہا کہ کرونا وائرس کی ٹیسٹنگ کا عمل جاری رکھنا چاہیے، تاکہ یہ پتا چلایا جا سکے کہ کون سے افراد اس وبا سے متاثر ہوئے ہیں اور وہ کن افراد سے ملے ہوں گے، تاکہ صورتحال کی ایک مکمل تصویر سامنے آ سکے اور پھر اس تصویر کے مطابق اس وبا کے پھیلاؤ پر قابو پانے کے اقدامات کیے جائیں۔
پاکستان کے حوالے سے ڈاکٹر چھٹانی نے کہا کہ یہ حقیقت ہے کہ کرونا وائرس نے معیشت کو نقصان پہنچایا ہے اور یہ بات بھی قابل فہم ہے کہ لوگوں کو روزگار کی ضرورت ہے۔ لیکن، کرونا وائرس سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر کو ہرگز نہ چھوڑا جائے، کیونکہ یہ وبا اس وقت شدت کے ساتھ موجود اور پھیلی ہوئی ہے۔
ورجینیا میں مقیم پاکستانی امریکی ڈاکٹر اور ماہر نفسیات شائستہ حمید نے کہا ہے کہ کسی کو اس بات پر شک نہیں ہونا چاہیے کہ کرونا وائرس ایک تلخ حقیقت کی طرح ہے۔
انہوں نے کہا کہ ''میں اس بات سے اتفاق نہیں کرتی کہ وائرس کی اپنی ہیئت میں کچھ ایسی تبدیلی آئی ہے کہ جس کی وجہ سے یہ کم مہلک ہو گیا ہے۔ یہ بہت ہی تیزی سے پھیلنے والا موذی مرض ہے اور ہمیں اس کے تمام پہلوؤں کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس کا مقابلہ کرنا ہوگا''۔
احتیاطی تدابیر کے جاری رکھنے پر زور دیتے ہوئے، ڈاکٹر شائستہ نے کہا کہ لوگوں کو ہجوم یا مجمع کی جگہ پر جانے سے گریز کرنا چاہیے۔
اس کے علاوہ ہاتھ دھونے کے عمل جیسے صحت عامہ کے اصولوں کو اپنانا چاہیے۔
انہوں نے کہا ''میرے ذاتی مشاہدے میں ہے کہ اب جبکہ لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد بہت سے لوگوں نے گھروں سے باہر نکلنا شروع کیا ہے، کئی لوگ عوامی مقامات پر چہرے پر ماسک نہیں پہنتے۔ یہ ایک خطرناک بات ہے، کیونکہ ویکسین اور موثر دوا کی عدم دستیابی کے باعث احتیاطی تدابیر پر عمل جاری رکھنا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کا مؤثر ترین طریقہ ہیں۔