پاکستان میں سینیٹ اجلاس کے دوران حکومت کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ کرونا وائرس سے پیدا ہونے والے معاشی بحران کے باعث ملک میں 30 لاکھ افراد بے روزگار ہو سکتے ہیں۔
ان میں سے 10 لاکھ صنعتی شعبے اور 20 لاکھ افراد خدمات کے شعبے سے منسلک ہیں جن کی ملازمتیں ختم ہونے کا خدشہ ہے۔ سینیٹ اجلاس میں پاکستان اسٹیل ملز سے ملازمین کو نکالنے کے معاملے پر بھی بھرپور احتجاج کیا گیا۔
جمعے کو سینیٹ اجلاس کے دوران وزارتِ خزانہ نے تحریری سوالات کے جواب میں ایوان کو بتایا کہ کرونا وائرس سے پیدا ہونے والے بحران کے باعث غربت کی شرح 24.3 فی صد سے بڑھ کر 33.5 فی صد ہونے کا امکان ہے۔ اس صورتِ حال میں 30 لاکھ افراد کی ملازمتیں جا سکتی ہیں۔
وزارتِ خزانہ کے مطابق کرونا وائرس کی وجہ سے ملکی ترقی کی رفتار کو نقصان پہنچا ہے اور فروری تا مارچ کے عرصے کے دوران روپے کی قدر میں ماہانہ بنیاد پر 7٫5 فی صد تک کمی آئی ہے۔
تحریری جواب میں وزارتِ خزانہ کا کہنا تھا کہ اپریل سے جون تک ایف بی آر کے ریوینیو میں بھی 700 سے 900 ارب روپے تک کی کمی متوقع ہے۔ ایف بی آر کا رواں مالی سال کا ٹیکس ہدف 4800 ارب روپے تھا لیکن کرونا کی وجہ سے ٹیکس ریونیو 3905 ارب روپے تک گر سکتا ہے۔
وزارتِ خزانہ کا کہنا ہے کہ کرونا بحران کے باعث پاکستان کی برآمدات کم ہو کر 21.22 ارب ڈالرز رہیں گی جب کہ بیرون ملک کام کرنے والے مزدوروں کی ترسیلات میں بھی دو ارب ڈالرز کی کمی ہو سکتی ہے۔
اس بارے میں تجزیہ کار فرخ سلیم کہتے ہیں کہ کرونا ایک سنگین بحران ہے جس کے باعث شرح نمو میں کمی کی وجہ سے لاکھوں لوگوں کے بے روزگار ہونے کا خدشہ ہے۔
سینیٹ اجلاس میں پاکستان اسٹیل ملز پر بحث
سینیٹ اجلاس میں پاکستان اسٹیل مل سے 9350 ملازمین کو نکالنے کے معاملے پر اپوزیشن نے حکومت پر شدید تنقید کی۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما مشاہداللہ خان کا کہنا تھا کہ پاکستان تحریکِ انصاف نے حکومت میں آنے سے قبل بہت دعوے کیے تھے کہ اپوزیشن ممبران کی اسٹیل ملیں چلتی ہیں لیکن پاکستان اسٹیل بند ہے۔ اب ان کو چلانے سے کون روک رہا ہے؟ ایک کروڑ نوکریوں کے دعوے کرنے والے ہزاروں افراد کو بے روزگار کر رہے ہیں۔
پاکستان اسٹیل کے معاملے پر وزیرِ اقتصادی امور حماد اظہر کا کہنا تھا کہ اسٹیل ملز کے ملازمین کو گزشتہ ساڑھے پانچ سال سے گھروں میں بٹھا کر تنخواہیں ادا کی جا رہی تھیں۔ لیکن اب اس ادارے کا برا حال ہو چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اسٹیل ملز پر 211 ارب کا قرض اور اس کا نقصان 176 ارب روپے ہے۔
حماد اظہر کا کہنا تھا کہ پاکستان اسٹیل ملز 2008 اور 2009 کے درمیان منافع سے خسارے میں چلی گئی تھی اور 2015 میں اسٹیل مل کو بند کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد سے اب تک ساڑھے پانچ سال میں ملازمین کو 35 ارب تنخواہوں کی مد میں ادا کیے جا چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ اسٹیل ملز کو نجی پارٹنر شپ کے ساتھ چلائیں۔ ہم اسٹیل ملز کے قرض کی ری اسٹرکچرنگ کے بعد نجکاری کی جانب جائیں گے۔ اسٹیل ملز کے ملازمین کو اوسطاً 23 لاکھ روپے دیے جائیں گے اور بعض کو 70 لاکھ روپے تک ملیں گے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم نے کہا کہ اسٹیل مل کے نو ہزار لوگوں کو سڑک پر بھجوا دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب 2007 میں انہوں نے اس مل کی چیئرمین شپ چھوڑی تھی تو اس وقت مل کے پاس 10 ارب روپے سے زائد کا تیار مال موجود تھا اور اس پر کوئی قرضہ نہیں تھا۔
جنرل (ر) عبدالقیوم کا کہنا تھا کہ بے شک اسٹیل ملز کی نجکاری کریں لیکن یہ درست نہیں ہے کہ ہزاروں افراد کو بیک جنبش قلم بے روزگار کر دیا جائے۔ نئی انتظامیہ سے بات کر کے ملازمین کو وہاں کھپایا جانا چاہیے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ اسٹیل مل کی 20 ہزار ایکڑ اراضی میں سے صرف 18 سو ایکڑ نجی شعبے کے حوالے کی جائے گی اور حکومت باقی مل پر اپنا کنٹرول ہی رکھے گی۔