افغانستان میں قیام امن کے لئے امریکہ کا ایک مخصوص اور فعال کردار رہا ہے۔ طالبان کے ساتھ تقریباً ایک برس تک جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد امن سمجھوتہ بھی طے پاگیا ہے۔ لیکن، اب صورتحال یہ ہے کہ کرونا کی مہلک وبا نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور خود امریکہ انتہائی متاثرہ ملکوں میں شامل ہو گیا ہے۔
امریکہ نے اگرچہ افغانستان کو کرونا وائرس سے نمٹنے کے لئے امداد فراہم کی ہے، لیکن اب سوال یہ ہے کہ کرونا کے تناظر میں امریکہ کے افغانستان میں کردار پر کس نوعیت کے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
پاکستان سے تجزیہ کار اور کالم نگار بریگیڈیئر (ر) عمران ملک نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت کرونا ایک عالمی وبا کی صورت اختیار کر گیا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ اس کا مرکز بن گیا ہے اور اس کو کرونا کے بھیانک اثرات کا سامنا ہے۔
اس لئے امریکہ کے لئے یہ ممکن نہیں ہو گا کہ وہ دنیا میں اپنے اقتصادی، فوجی اور سیاسی توجہ برقرار رکھ سکے؛ بلکہ، اب وہ مجبور ہو گیا ہے کہ وہ اپنی تمام سیاسی اور اقتصادی قوت کو اپنے ملک کے اندر مرکوز کرے اور خود کو اس ہولناک وبا سے محفوظ رکھنے پر دھیان دے اور سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ 2020 صدارتی انتخاب کا سال ہے۔ اور امریکہ اس بات کا خواہاں ہے کہ بیرونی عوامل سے ہٹ کر داخلی صورتحال پر توجہ مرتکز کی جائے اور انتخابی مہم میں کرونا وبا پر دھیان مبذول ہوگا۔
بریگیڈیئر عمران کا کہنا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ نے جس انداز میں اس سے نمٹنے کی کوشش کی ہے وہ اس کو انتخابی مہم میں نمایاں کرے گی۔ اس کے علاوہ جو دوسرے ایشوز 2020 انتخابی مہم میں اہمیت اختیار کریں گے، ان میں میڈی کئیر ہوگا۔
ہیلتھ پالیسی اور ہیلتھ انشورنس کے ساتھ ساتھ بے روزگاری جیسے معاملات اٹھائے جائیں گے۔امریکی صنعت اور معیشت کو دوبارہ بحال کیسے کرنا ہوگا اور ایک نیا سوشل کنٹریکٹ جو امریکی معاشرے کے کمزور طبقوں کے لئے ہو کہ ان کی صورتحال بہتر بنانے کے لئے کیا اقدام اٹھانا ہوں گے۔
خاص طور پر دنیا میں امریکہ کی واحد اقتصادی طاقت کی نمایاں حیثیت کو بحال کرنے پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔ اس پورے منظرنامے میں افغانستان غیر متعلق ہو جائیگا۔ بریگیڈئر ملک کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں امریکہ افغانستان سے اپنے انخلا میں جلدی کرے گا۔
واشنگٹن سے تجزیہ کار اور اسکالر ڈاکٹر زبیر اقبال سے ہمارا سوال یہ تھا کہ امریکہ کی نائب معاون وزیر خارجہ ایلس ویلز نے کہا ہے کہ اس وقت دنیا کو کرونا وائرس کی وبا کی وجہ سے تباہ کن معاشی صورتحال کا سامنا ہے۔ لیکن، ان کے بقول، امدادی اداروں کو مایوسی ہوئی ہے کہ افغان عوام کی بھلائی پر ذاتی مفادات کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ امریکہ بھی افغانستان کو کرونا سے نمٹنے کے لئے فنڈز فراہم کر چکا ہے۔
اس مخصوص تناظر میں آج افغانستان میں امریکہ کے رول کے بارے میں آپ کیا کہیں گے تو انہوں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ یہ ایک مشکل سوال ہے۔
آپ امریکہ افغانستان تعلقات کے بارے میں جانتے ہیں اور فروری میں امن معاہدے کے بعد توقع تو یہی کی جا رہی تھی کہ صورتحال نارمل رہے گی اور طالبان اور حکومت کے ساتھ ایسے تعلقات پیدا ہو جائیں گے کہ وہ کوئی سمجھوتہ طے کرکے قومی اتحاد پر مبنی حکومت بنانے کی طرف بڑھیں گے۔ ملک کے اندر استحکام پیدا ہو سکے گا اور ترقی کی کوئی صورت سامنے آپائے گی۔ لیکن اب کرونا وائرس کی وبا کے بعد حالات ویسے نہیں ہو پائے اور افغانستان کے اندر استحکام کی توقع پوری نہیں ہو سکتی، حکومت اور طالبان ایک پیج پر نہیں ہیں۔
دوسرے یہ کہ حکومت کی زیادہ پذیرائی بھی نہیں ہے۔ پھر ان کے اندر تنازعہ آرائی کی صورت ہے کہ ایک طرف اشرف غنی اور دوسری طرف عبداللہ عبداللہ۔
اس طرح حکومت کمزور ہے اور پھر طالبان بھی ان کے ساتھ تعاون نہیں کر رہے اور طالبان کی فوجی اور اقتصادی صورتحال بھی بہتر ہے۔ لیکن اس موجودہ صورتحال میں کرونا کے اثرات کو دیکھتے ہوئے دونوں فریقین میں سے کوئی بھی کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
انھوں نے کہا کہ ایسی صورت میں، ان کو زیادہ وسائل فراہم کرنے کی ضرورت ہوگی اور ان وسائل کو حکومت کے علاوہ کوئی تیسری قوت ہی استعمال کر سکے گی۔ اس لئے، افغانستان میں امریکہ کی پوزیشن دوبارہ اہم ہو جاتی ہے، کیونکہ اس کے پاس وہاں اپنا سٹرکچر ہے۔ اپنے لوگ بھی وہاں ہیں۔ ان کی فوج بھی وہاں ہے تو اس طرح وہ وسائل کو بہتر طور پر استعمال کرنے کے اہل ہونگے۔ یہ کیسے ہوگا۔ کب تک ہوگا یہ کہنا بہت مشکل ہے، کیونکہ تمام متعلقہ فریق اس صورتحال کو اپنے فائدے کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کریں گے۔