دنیا بھر میں اب تک یہی خیال تھا کہ کرونا وائرس سے سب سے زیادہ مریض کے پھیپھڑے متاثر ہوتے ہیں۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس وائرس کی سنگینی کا بھی علم ہوتا جا رہا ہے۔ اب طبی ماہرین کہتے ہیں کہ اس وائرس کا شکار ہونے والوں کے جسم کے بہت سے اعضا متاثر ہو تے ہیں جن میں گردے اور دل کے علاوہ دماغ بھی شامل ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس بات کا احساس ڈاکٹروں کو اس وقت ہوا جب بڑی تعداد میں سٹروک یا فالج کے مریض سامنے آنے لگے۔ اور تحقیق کے بعد پتا چلا کہ ان پر کرونا وائرس کا حملہ ہوا تھا، جبکہ ان مریضوں کی عمر 30 سے 40 برس کے درمیان تھی اور بظاہر انہیں اور کوئی بیماری بھی نہیں تھی۔
ڈاکٹر عدنان قریشی، زینت قریشی سٹروک انسٹی ٹیوٹ اور یونیورسٹی آف مزوری میں پروفیسر آف نیو رالوجی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسے واقعات اتنے تواتر سے ہوئے کہ ماہرین کو اس پر فوری توجہ دینی پڑی۔
وہ کہتے ہیں تقریباً چھ ہفتے پہلے بین الااقوامی ماہرین کے ایک پینل میں 18ممالک کے ماہرین نے شرکت کی اور اس میں سب سے پہلے یہی سوال زیرِ بحث آیا کہ کووڈ 19 سے سٹروک یا فالج کا خطرہ زیادہ تو نہیں ہو جائے گا؟
اس پینل نے یہ اخذ کیا کہ اب تک کی معلومات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ کووڈ 19 سے سٹروک کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس سے پہلے جو انفیکشن بھی دنیا میں پھیلی اس کے دوران بھی سٹروک کا خطرہ بڑھ گیا تھا۔
ڈاکٹر قریشی کہتے ہیں کہ چین سے آنے والی رپورٹوں سے بھی ظاہر ہوا کہ کووڈ 19 سے جسم میں خون جمنے یا کلاٹ بننے کا عمل زیادہ ہو گیا۔ اس سے بھی شبہ تھا کہ سٹروک کا خطرہ بڑھ جائے گا اور تازہ ترین رپورٹ سے یہ ثابت ہو گیا ہے۔ لیکن، ساتھ ہی یہ خدشہ بھی بڑھ گیا کہ سٹروک کے مریض سے اس کا علاج کرنے والے ڈاکٹروں اور طبی عملے کو کووڈ 19 ہو سکتا ہے۔
ڈاکٹر قریشی کہتے ہیں اس وقت ہسپتالوں میں سٹروک کے جو مریض آرہے ہیں ان میں سے زیادہ تر کے بارے میں یہ علم نہیں ہوتا کہ آیا وہ کرونا وائرس سے متاثر ہیں یا نہیں۔
اس رپورٹ کے بعد اب جو بھی مریض آتا ہے اس کے بارے میں یہ یقین کر لیا جاتا ہے کہ اسے کووڈ 19 تو نہیں؟ لیکن وہ کہتے ہیں کہ اس میں کم سے کم دو گھنٹے اور زیادہ سے زیادہ دو دن تک لگ جاتے ہیں جبکہ سٹروک کے مریض کو فوری دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لئے بعض ہسپتال یہ فرض کر رہے ہیں کہ سٹروک کے مریض کو کووڈ 19 بھی ہو گا اور وہ اسی طرح علاج کرتے ہیں۔
اس وقت تقریباً تمام ہسپتال کرونا وائرس کے مریضوں کے علاج کیلئے تیار ہیں اور جنہیں دیگر امراض یعنی ہائی بلڈ پریشر، ہائی کولیسٹرول، ذیابیطس اور دل کے امراض لاحق ہیں وہ علاج کیلئے ہسپتال نہیں آ رہے۔ ان کی دیکھ بھال متاثر ہو رہی ہے۔ اور ان میں سٹروک کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔
ڈاکٹر قریشی کے مطابق جب وہ ہسپتال آتے ہیں تو انہیں سٹروک ہو چکا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سٹروک کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سٹروک کی طرح کرونا وائرس کا تعلق بھی عمر سے ہے اور اس سے بھی زیادہ تر وہی لوگ متاثر ہوتے ہیں جنہیں پہلے سے کوئی بیماری ہو جیسا کہ ہائی بلڈ پریشر۔ ہائی کولیسٹرول، ذیابیطس یا دل کی بیماری۔ ایسے لوگوں پر اس کا حملہ بھی شدید ہوتا ہے۔
ڈاکٹر عدنان قریشی کہتے ہیں ایسے لوگوں کو اپنے علاج پر پوری توجہ دینی چاہئیے کیونکہ وہ کسی بھی بڑی صورتِ حال کا جلد شکار ہو سکتے ہیں۔
کرونا وائرس جس شدت سے پھیلا ہے انسانی صحت کو اس نے اسی شدت سے نقصان پہنچایا ہے۔ ابھی اس کا زور ٹوٹا نہیں ہے۔ ماہرین کی تحقیق جاری ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس مہلک وائرس کے پرت بھی کھلتے جائیں گے۔