اولاد ماں باپ کے لیے دولت ہے۔۔۔اور چھوٹی اولاد تو ہمیشہ بہت پیاری ہوتی ہے۔۔۔ مگر اس بیٹی کا کیا جو جاپان سے پاکستان صرف ماں سے ملنے گئی مگر یہ دیکھ کر سناٹے میں آگئی کہ ماں اسے پہچانتی ہی نہیں۔۔۔ بار بار پوچھنے پر صرف یہی کہتی ہیں کہ "ہاں اپنی ہی بچی ہے۔۔۔"
"ارے ماں آپ کی چھوٹی بیٹی ہوں۔۔۔آپ کیسے بھول گئیں سب؟ کتنا ظلم ہے یہ۔۔۔" مگر الزائمر ایسا ہی ظالم ہے۔۔۔ نسیان کی وہ دولت دے جاتا ہے کہ اس سے زیادہ تہی دامنی اور کوئی ہو نہیں سکتی۔
Your browser doesn’t support HTML5
نسیان کو دولت کہنے والوں کا شاید کبھی اس کیفیت سے پالا نہیں پڑا جس کے بارے میں طبی ماہرین کہتے ہیں کہ ذہن میں کپاس بھر دیتی ہے۔
یہ کیفیت ان لوگوں کی ہوتی ہے جو الزائمر کے مرض میں مبتلا ہو کر اپنی یاد داشت کھو بیٹھتے ہیں۔ ایسے ہی ایک مریض نے اس کیفیت کو بیان کرتے ہوئے کہا تھا لگتا ہے ماتھے پر گویا روئی رکھی ہے۔
کرونا وائرس کے ان دنوں میں کئی مرتبہ جی چاہا کچھ نہ سوچا جائے۔۔۔ کاش خبریں بدل جائیں۔۔۔بیماری۔۔۔موت۔۔۔ بے بسی۔ بار بار ایک مصرع دماغ میں گونجتا رہا۔۔۔ چھین لے مجھ سے حافظہ میرا۔۔۔ مگر نہیں۔۔۔ یہ سب ٹھیک نہیں۔۔۔ سچ تو یہ ہے کہ جن کا حافظہ ٹھیک نہیں ان کی بے بسی تو اس سے کہیں زیادہ ہے۔
کرونا وائرس نے دنیا کو اس طرح اپنی لپیٹ میں لیا ہے کہ ہر تحقیق کا رخ اسی کی جانب مڑ گیا ہے۔۔۔ ہر روز ایک نئی حقیقت سامنے آ رہی ہے۔۔۔اور اسی تحقیق نے اب یہ بھی بتا دیا کہ نہ صرف یہ کہ یہ وائرس جسم میں داخل ہو کر بلا امتیاز ہر عضو کو متاثر کرتا ہے بلکہ دماغ کو بھی نشانہ بناتا ہے اور وہ لوگ جو پہلے سے کسی ذہنی مرض کا شکار ہیں ان کی تکلیف کئی گنا بڑھا دیتا ہے۔
ڈاکٹر محمد فرید خان سوری منی ایپلس منی سوٹا یونیورسٹی میں نیورولوجسٹ ہیں۔ ۔ الزائمر کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ اس مرض میں کبھی عارضی اور کبھی مستقل طور پر لوگ اپنی یاداشت کھو دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں اس کے بارے میں بہت تحقیق ہوئی ہے اور ہو رہی ہے مگر ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اس کی وجہ کیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس مرض کا تعلق عمر سے ہے اور جو لوگ 80 سے اوپر کے ہیں ان میں اس مرض کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں اس کے بارے میں یہ تو معلوم ہے کہ اس کی تشخیص کیسے کرنی ہے، اس سے کیا نقصان ہوتا ہے، کتنی ڈیجنریشن ہوتی ہے، نیورون کیسے متاثر ہو رہے ہیں لیکن یہ معلوم نہیں ہے کہ یہ کیوں ہوتا ہے، اسے شروع ہونے سے کیسے روکنا ہے اور اس پر کنٹرول کیسے کرنا ہے۔ البتہ ایسی دوائیں ہیں کہ جو اس عمل کو کچھ سست کر دیتی ہیں۔
الزائمر کی ابتدا ہی میں مریض کی سوچ، یاداشت اور گفتگو متاثر ہوتی ہے۔ انسان چیزیں بھولنے لگتا ہے، قریب کے واقعات، نام، رشتے اسے یاد نہیں رہتے۔ پہچان ختم ہو جاتی ہے اور پھر وقت گزرنے کے ساتھ اس میں اینگزائٹی اور غصہ بڑھ جاتا ہے۔ اور یہ مرحلہ گھر والوں کیلئے انتہائی پریشان کن ہوتا ہے۔ ایسے میں اگر کرونا وائرس سے بھی متاثر ہو جائے تو اس مریض کا سنبھالنا ایک چیلنج بن جاتا ہے۔
کرونا وائرس کی وبا نے جہاں اچھے بھلے صحت مند لوگوں کو اسپتال پہنچا دیا وہاں ان لوگوں کی مشکلات کتنی زیادہ ہوں گی جو اپنی کیفیت بتانے سے بھی قاصر ہیں۔
ڈاکٹر سوری کہتے ہیں کہ ذہنی امراض میں مبتلا لوگوں کیلئے ضروری ہے کہ انہیں اکیلا نہ چھوڑا جائے۔ انہوں نے کہا کہ الزائمر ہی کو لے لیجئے اس کے مریضوں کو اگر کوئی معمولی سی تکلیف بھی ہو جائے تو ان کی الجھن بہت بڑھ جاتی ہے کیونکہ وہ اپنی کیفیت بیان نہیں کر سکتے۔
ڈاکٹر سوری کہتے ہیں کہ اگر الزائمر کے مریض کو کرونا وائرس کی انفیکشن ہو جائے تو اس کی حالت عام متاثرہ لوگوں سے زیادہ خراب ہو سکتی ہے۔ انہیں کرونا وائرس کی علامات مثلاً بخار بھی زیادہ ہو گا، سانس کی تکلیف بھی زیادہ ہو سکتی ہے اور کنفیوژن بھی زیادہ ہو گا۔ اور جب وہ اپنی حالت سمجھ نہیں پائیں گے، بتا نہیں پائیں گے تو بدحالی کے امکانات بڑھ جائیں گے۔
ڈاکٹر سوری کہتے ہیں ذہنی امراض انسان کو دوسروں پر انحصار پر مجبور کر دیتے ہیں مگر کرونا وائرس کے دنوں میں ان کی دیکھ بھال کا خاص خیال رکھنا ضروری ہے اور سختی سے ان تدابیر پر عمل کرنا ہو گا جو کوویڈ 19 سے بچاؤ کیلئے ہر انسان کے لئے ضروری ہیں۔
ڈاکٹر محمد فرید سوری کی ٹیم نے کرونا وائرس اور لاک ڈاؤن کے بارے میں تحقیق کے ذریعے معلوم کیا ہے کہ جن علاقوں میں اس وائرس کی ابتدا ہی میں مکمل لاک ڈاؤن کیا گیا وہاں مریضوں کی تعداد کئی گنا کم رہی۔ صرف نیویارک میں ہی وہ کہتے ہیں کہ اگر جلد لاک ڈاؤن کر دیا جاتا تو مریضوں کی تعداد 16 گنا کم رہتی۔ تاہم انہوں نے کہا کہ ایک جانب یہ طریقہ صحت کیلئے انتہائی مؤثر ہے اور دوسری جانب اس سے معیشت پر برے اثرات مرتب ہو تے ہیں چنانچہ دیکھنا ہو گا کہ صحت کا انتخاب کیا جاتا ہے یا معیشت کا۔
صحت ہو یا دولت دونوں ہی ضروری ہیں مگر اس کا کیا جسے دونوں ہی کے بارے میں کچھ یاد نہ ہو۔