اخبارات میں پنجاب حکومت کے اشتہارات کی بھرمار؛ 'جو صرف اخبار پڑھتے ہیں وہ کہاں جائیں'

  • پچیس فروری کے اخبارات میں مریم نواز کی پنجاب حکومت کا ایک سال مکمل ہونے پر خبروں کی طرز پر اشتہارات پر بعض حلقوں نے تنقید کی ہے۔
  • بزرگ قارئین کے ساتھ ساتھ سینئر صحافی بھی اس معاملے پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔
  • سینئر صحافی حسین نقی سمجھتے ہیں کہ اِس تشہیری مہم کا حکومت کو اُلٹا نقصان ہو گا کیوں کہ جب بھی کسی چیز کو غلط طریقے سے بڑھا چڑھا کر بیان کیا جاتا ہے تو اُس کا نقصان ہوتا ہے۔
  • صوبہ پنجاب میں ڈائریکٹوریٹ جنرل آف پبلک ریلیشن (ڈی جی پی آر) کے مطابق موجودہ تشہیری مہم قواعد اور ضوابط کے مطابق ہے جس کے لیے باقاعدہ قوانین سے رہنمائی لی گئی ہے۔

لاہور -- "یہ صحافت ہی نہیں ہے یہ تو سیدھی سیدھی حکومت کی چاپلوسی ہے۔ نہ وہ اخبار نویسی رہی نہ وہ اخبارات رہے۔ اخبار کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ عوام تک اہم، حقیقی اور اصل بات سیدھے سادے لفظوں میں پہنچائی جائے۔"

یہ کہنا ہے لاہور کے رہائشی 80 سالہ عظیم قریشی کا جن کے مطابق اُنہوں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے مختلف اخبارات کا مطالعہ کرتے آ رہے ہیں جن میں اُردو اخبارات اور انگریزی زبان میں چھپنے والے اخبارات شامل ہیں۔

مگر رواں ہفتے 25 فروری کو حسبِ معمول اُنہوں نے اخبارات دیکھے تو وہ وزیراعلٰی پنجاب مریم نواز، نواز شریف کے بیانات اور دیگر حکومتی منصوبوں سے متعلق خبر نما اشتہارات سے بھرے ہوئے تھے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ڈیجیٹل میڈیا کے اس دور میں اُن جیسے بزرگوں کے لیے حالاتِ حاضرہ کے لیے اخبارات ہی بڑا ذریعہ ہیں۔ لیکن اگر یہ بھی اشتہارات سے بھر جائیں گے تو پھر وہ کہاں جائیں گے۔

عظیم قریشی کا مزید کہنا تھا کہ پہلے صفحے پر اگر کوئی اشتہار چھپتا تھا تو آدھے صفحے کے بعد نچلے حصے پر چھپتا تھا۔ اوپر والے حصے میں صرف خبریں ہوا کرتی تھیں۔ لیکن 25 فروری کے اخبار کا فرنٹ پیج اشتہارات پر مشتمل تھا۔

خیال رہے کہ مریم نواز کا بطور وزیراعلٰی پنجاب ایک سال مکمل ہونے پر پنجاب حکومت نے ایک مخصوص انداز میں تشہیری مہم شروع کی ہے جس کے تحت 25 فروری کو پاکستان کے بڑے اُردو اور انگریزی اخبارات کے پہلے صفحے ایک جیسے تھے۔ جن میں وزیراعلٰی پنجاب کے اعلان کردہ منصوبے اور حکومتِ پنجاب کی ایک سالہ کارکردگی کو خبروں کے انداز میں چھاپا گیا تھا۔

اس کے بعد سے سماجی حلقوں اور سوشل میڈیا پر یہ بات موضوع بحث بنی ہوئی ہے کہ حکومت عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ اپنی تشہیری مہم پر کیوں لُٹا رہی ہے۔

اخبارات کی آمدنی کا ذریعہ اب اشتہارات ہی ہیں'

سینئر صحافی حسین نقی سمجھتے ہیں کہ اِس تشہیری مہم کا حکومت کو اُلٹا نقصان ہو گا کیوں کہ جب بھی کسی چیز کو غلط طریقے سے بڑھا چڑھا کر بیان کیا جاتا ہے تو اُس کا نقصان ہوتا ہے۔ یہ ایک طرح سے عوام کے ٹیکسوں کے پیسوں کا ضیاع ہے جس کو روکنا ہو گا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ صورتِ حال تو یہ ہے کہ مریم نواز تو صوبے کی وزیراعلیٰ ہیں لیکن اُنہوں نے اپنے ساتھ اپنے والد کی تصاویر بھی لگا دیں ہیں جن کے پاس کوئی عوامی عہدہ نہیں ہے۔

پاکستان میں اخبار مالکان کی نمائندہ تنظیم 'سی پی این اے' کے صدر ارشاد احمد عارف کہتے ہیں کہ اس بات کے دو پہلو ہیں۔ پہلا یہ کہ اِس طرح کی پالیسیوں سے اخبار کے قارئین کم ہوں گے۔ دوم ملک کے پرنٹ میڈیا کے حالات کے مطابق یہ پالیسی درست نظر آتی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان میں پرنٹ میڈیا کے آمدن کے تین ذرائع تھے۔ اول حکومتی اشتہارات، دوم نجی کمپنیوں کے اشتہارات اور سوم اخبارات کی فروخت۔ لیکن 70 کی دہائی کے بعد سے پاکستان میں اخبار کی صنعت میں استعمال ہونے والا کاغذ باہر سے منگوایا جاتا ہے۔

ارشاد احمد عارف کا کہنا تھا کہ خراب معاشی حالات کی وجہ سے اخبار کی صنعت شدید متاثر ہوئی ہے۔ نجی کمپنیوں کے اشہتارات بھی کم ہو گئے ہیں، لہذٰا اخبارات کی آمدن کا واحد ذریعہ اب حکومتی اشتہارات ہی رہ گئے ہیں۔

حسین نقی کہتے ہیں کہ صحافیوں کی ذمے داری تو یہ ہے کہ وہ حکومت کی ناقص پالیسیوں کو سامنے لائے اور عوام کو حقائق سے آگاہ کرے۔ لیکن اگر اخبارات سرکاری اشتہارات پر انحصار کریں گے تو پھر وہ حکومت پر تنقید سے بھی گریز کریں گے۔

اُن کے بقول افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اخبارات اپنی معاشرتی ذمے داری پوری نہیں کر پا رہے۔

صوبہ پنجاب میں ڈائریکٹوریٹ جنرل آف پبلک ریلیشن (ڈی جی پی آر) کے مطابق موجودہ تشہیری مہم قواعد اور ضوابط کے مطابق ہے جس کے لیے باقاعدہ قوانین سے رہنمائی لی گئی ہے۔

'ماضی میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے'

ذرائع ڈی جی پی آر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا۔ تشہیری مہم کا یہ نیا انداز پاکستان تحریکِ انصافِ (پی ٹی آئی) کے دورِ حکومت میں متعارف کرایا گیا تھا جس میں اُس وقت کے صوبہ پنجاب کے وزیر اعلٰی عثمان بزدار کی حکومت کا ایک سال پورا ہونے پر اسی نوعیت کی تشہیری مہم چلائی گئی تھی۔

ذرائع ڈی جی پی آر کے مطابق موجودہ تشہیری مہم حکومت کی جانب سے ذرائع ابلاغ کو سالانہ جاری کی جانے والے اشتہارات کی مد میں سے جاری کیے گئے ہیں جن کے لیے الگ سے کوئی رقم نہیں رکھی گئی۔

ارشاد احمد عارف کے بقول ہونا تو یہی چاہیے کہ حکومت عوام کے ٹیکسوں کے پیسوں کو دیانت داری سے خرچ کرے لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو رہا ہے۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ صرف اخبارت کو ہی اشتہارت نہیں مل رہے دیگر ذرائع ابلاغ کو بھی مل رہے ہیں۔

پنجاب حکومت کی اِس تشہیری مہم پر حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتیں بھی تنقید کر رہی ہیں۔ پی ٹی آئی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ایک صوبے کی وزیراعلٰی عوام کے پیسوں سے جھوٹے دعوے کر رہی ہے جب کہ حقیت میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔

اپوزیشن رہنماؤں کے مطابق اگر مریم نواز کو اپنی تشہیر کا شوق ہے تو وہ اپنی ذاتی رقم سے اِن کے اخراجات برداشت کریں۔

دوسری جانب وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ پنجاب نےڈیلیور کیا اس لیے لوگوں کو نظر آرہا ہے۔ مریم نواز کی حکومت نے ایک سال میں پنجاب کے لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیریں ہیں۔

خیال رہے اِس سے قبل 22 فروری کو بھی پنجاب حکومت کی جانب سے اخباروں کو آدھے صفحے جب کہ وفاقی حکومت کی جانب سے رواں ماہ آٹھ فروری کو وفاقی حکومت کا ایک سال پورا ہونے پر ملک کے بڑے اور اہم اخبارات کو کم و بیش پورے صفحے کے اشتہارات دیے گئے تھے جن میں وزیراعظم شہباز شریف کی تصویر بھی نمایاں تھی۔