کانگو وائرس کے باعث سات افراد ہلاک: رپورٹ

فائل

پاکستان کے صوبہٴ سندھ میں گزشتہ دو ہفتوں کے دوران کانگو وائرس کے 30 سے زائد کیس ریکارڈ کئے گئے ہیں، جن میں 7 افراد کی موت واقع ہو چکی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ عید قرباں کے بعد یہ مرض ایک بار پھر وبائی شکل میں سامنے آیا ہے، جس کی وجہ عید کے موقع پر قربانی کے جانوروں سے پھوٹ پڑنے والی اس بیماری کے خلاف احتیاطی اقدامات اٹھانے میں ناکامی ہے۔ خدشہ ہے کہ یہ وبا کی صورت اختیار کر سکتی ہے۔

محکمہٴ صحت سندھ نے عید سے قبل ہی کانگو وائرس کے حوالے سے انتباہ جاری کر دیا تھا۔ محکمے کے فوکل پرسن، ڈاکٹر ظفر مہدی کا کہنا ہے کہ یہ حیوانات کے محکمے کی ذمہ داری تھی کہ عید کے موقع پر شہر میں آنے والے جانوروں پر ادویات کا چھڑکاؤ کرتی، کیونکہ یہ جانور ہی ہیں جن کی جلد سے چمٹا ہوا مخصوص ٹک (چیچڑ) انسانوں میں کانگو وائرس منتقلی کا ذریعہ بنتا ہے۔

ڈاکٹر ظفر مہدی کے بقول،’’تقریبا 30 کیسز سامنے آچکے ہیں، جن میں سے 13 کراچی کے کیسز ہیں باقی بلوچستان اور پنجاب سے سول اور جے پی ایم سی اسپتال میں لائے گئے ۔بہت سے لوگوں کا کامیاب علاج ہو اور وہ گھروں کو روانہ ہوگئے‘‘۔ اُنھوں نے کہا کہ پرسوں جو انتقال ہوا اس کو ملا کر کل سات اموات ہو چکی ہیں۔

وزیر صحت نے اجلاس طلب کیا تھا جس میں انھوں نے محکمہ حوانیات کے افسران کو بھی طلب کیا تھا، کیونکہ احتیاطی اقدامات کے تحت سب سے پہلا کام محکمہ حوانیات کا ہی ہے یہ جو جانور شہر میں آرہے تھے ان پر اسپرے کیا جائے جو کہ نہیں ہو رہا تھا۔ ان کے اندر ٹک کی موجودگی کی وجہ سے لوگوں کو کانگو لگتا ہے یہ ٹک ان پر موجود تھے اسی لئے اس بار کچھ زیادہ کیسز ریکارڈ ہوئے، جبکہ محکمہ صحت نے مارچ میں ہی احتیاطی تدابیر کی ایڈوائزری جاری کردی تھی۔

شہر کے دو بڑے اسپتالوں میں کانگو وائرس کے متاثرہ مریضوں کے علاج کے لئے آئیسولیشن سنٹر قائم کردئے گئے ہیں، جن میں اب تک 30 مریض داخل کئے گئے۔

اُنھوں نے بتایا کہ ’ائسولیشن وارڈ‘ بنوا دئے گئے ہیں، کیونکہ جو مریض کانگو میں آتا ہے اسے علیحدہ رکھنا پڑتا ہے۔ جناح اور سول اسپتال کے علاوہ ایک دو اور اسپتالوں میں بھی اس مقصد کے لئے وارڈ مختص کردئے گئے ہیں۔

انڈس اسپتال کراچی سے وابستہ وبائی امراض کی ماہر، ڈاکٹر نسیم صلاح الدین کہتی ہیں کہ شہر میں یہ وبا پھیلنے کا خدشہ ہے۔ اُنھوں نے صورتحال کا ذمہ دار صفائی ستھرائی کی موجودہ حالت کو قرار دیا۔

اُنھوں نے کہا کہ ’’بہت ہی زیادہ گندگی ہے۔ خاص کر بقر عید کے بعد جتنی قربانیاں ہوئی ہیں ان کی صفائی نہیں ہوئی جس کی وجہ سے بیماری پھیل رہی ہے۔ اسی کا خدشہ تھا‘‘َ۔

روزنامہ ایکسپریس سے وابستہ صحافی طفیل احمد کہتے ہیں کہ پاکستان میں ہر سال عید الاضحیٰ کے موقع پر اس مرض کے پھیلنے کا خدشہ رہتا ہے۔

بقول اُن کے، ’’بقر عید کے موقع پر ہر سال کانگو وائرس کا مرض سامنے آتا ہے، جس کی وجہ جانوروں کی کھال میں چپکا ہوا ٹک ہے جو اس کا خون چوستا ہے۔ اگر یہ ٹک کسی انسان کو کاٹ لے تو اسے کانگو وائرس منتقل ہوجاتا ہے‘‘۔

بتایا جاتا ہے کہ تشویش کی بات یہ ہے کہ سندھ میں کانگو وائرس کی تشخیص کے لئے کوئی سرکاری لیبارٹری نہیں اور نہ ہی سرکاری اسپتالوں میں علاج کی مناسب سہولت دستیاب ہے؛ جبکہ پرائیویٹ اسپتال عموماً کانگو وائرس کے متاثرین کا علاج کرنے سے گریز کرتے ہیں، کیونکہ یہ ایک سے دوسرے کو منتقل ہونے والی بیماری ہے۔

ماہرین کو خدشہ ہے کہ کانگو وائرس کے کیس سرکاری اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہوں گے، کیونکہ اکثر معاملات محکمہ صحت کو رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔