پاکستان کے صوبے بلوچستان کے وزیرِ اعلیٰ جام کمال خان نے جمعے کو بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے صدارتی عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ وزیرِ اعلیٰ کے اس فیصلے پر جماعت کے رہنماؤں اور کارکنوں کی اکثریت ناراضگی کا اظہار کر رہی ہے۔
وزیرِ اعلیٰ بلوچستان نے جماعت کی صدارت سے مستعفیٰ ہونے کی وجہ رہنماؤں اور کارکنوں کو وقت اور اہمیت نہ دینا بتائی ہے۔
صحافی اور تجزیہ کار رشید بلوچ کے مطابق جماعت میں رہنماؤں اور کارکنوں کی اکثریت وزیر اعلیٰ بلوچستان سے ناراض ہے۔
رشید بلوچ نے بتایا کہ جماعت کے کارکنوں کا مؤقف ہے کہ گزشتہ تین برسوں سے انہیں وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ میں داخلے کی بھی اجازت نہیں ملی جب کہ ترقیاتی منصوبوں میں ان کے مخالفین کو نوازا گیا۔
رشید بلوچ نے بتایا کہ جام کمال کے بلوچستان عوامی پارٹی کی صدارت سے مستعفیٰ ہونے کے بلوچستان کی سیاست پر تو زیادہ اثرات مرتب نہیں ہوں گے لیکن اس سے صرف جماعت ہی کو نقصان پہنچے گا۔
رشید بلوچ کے بقول جس طرح گزشتہ عام انتخابات کے دوران بلوچستان عوامی پارٹی راتوں رات وجود میں لائی گئی تھی اسی تیزی سے یہ جماعت اختلافات کے باعث ختم ہونے کی جانب رواں دواں ہے۔
ادھر استعفیٰ دینے کے بعد وزیرِ اعلیٰ بلوچستان نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک بیان بھی جاری کیا جس میں انہوں نے کہا ہے کہ"میں جانتا ہوں کہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو بے چین اور پریشان ہیں کہ ہم بلوچستان کے لیے چیزوں کو کس طرح بہتر بنا رہے ہیں۔"
I know there are many who are uncomfortable and uneasy how we are making things better for Balochistan. Closing personal and self interests aspects and expanding development for all areas and sectors.However, this policy shall inshallah continue for the overall betterment.
— Jam Kamal Khan (@jam_kamal) October 1, 2021
انہوں نے کہا کہ ذاتی مفادات کے پہلوؤں کو بند کرنا اور تمام شعبوں کے لیے ترقی کو بڑھانا ہمارے اہم اقدامات تھے تاہم یہ پالیسی مجموعی بہتری کے لیے جاری رہے گی۔
جام کمال خان نے مزید کہا ہے کہ انشاء اللہ یہ جماعت بلوچستان میں مزید ترقی کرے گی اور میں بہت پُرامید ہوں کہ اس کے نوجوان اور آنے والے ممبران اس کی بنیاد کو مزید مضبوط بنائیں گے۔
Inshallah this party shall grow more in Balochistan and i am very hopeful its youth and upcoming members shall build its foundation more stronger And gradually the opportunist shall leave its ranks and let it grow organic with progress.
— Jam Kamal Khan (@jam_kamal) October 1, 2021
بی اے پی ذرائع کے مطابق وزیرِ اعلیٰ بلوچستان جام کمال کے لیے ایک اور مشکل اس وقت سامنے آئی ہے جب پارلیمانی گروپ کے بعد ساتوں ڈویژنل آرگنائزرز نے بھی استعفیٰ دینے کا فیصلہ کر لیا۔
ذرائع کے مطابق جماعت کی طرف سے معاملات پر ایک بھی بیان سامنے نہیں آیا۔
یاد رہے کہ گزشتہ ماہ بلوچستان اسمبلی میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے وزیرِ اعلیٰ جام کمال خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد جمع کرا دی تھی جسے بعدازاں واپس لے لیا گیا تھا۔
'وزیر اعلیٰ بلوچستان کی سیاسی گرفت کمزور پڑ رہی ہے'
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پارٹی کی صدارت سے مستعفیٰ ہونے کے بعد وزیرِ اعلیٰ بلوچستان کی سیاسی گرفت کمزور پڑ رہی ہے۔
کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی اور تجزیہ کار خلیل احمد نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ بلوچستان عوامی پارٹی کے تمام آرگنائزرز نے وزیرِ اعلیٰ بلوچستان کی کارکردگی اور رویے کے خلاف اپنے استعفے چیف آرگنائزر کو جمع کروائے تھے جس پر وزیرِ اعلیٰ کو پارٹی صدارت سے مستعفیٰ ہونا پڑا۔
خلیل احمد سمجھتے ہیں کہ اگر جام کمال وزیر اعلیٰ کے ساتھ ساتھ جماعت کے قائد بھی ہیں تو وہ سیاسی طور پر مضبوط ہیں مگر اب پارٹی قیادت چھوڑنے کے بعد وزیر اعلیٰ بلوچستان سیاسی طور پر غیر مستحکم نظر آتے ہیں۔
خلیل احمد کے بقول جام کمال کے وزراتِ اعلیٰ کے عہدے سے مستعفیٰ ہونے کے حوالے سے آئندہ 48 گھنٹے بہت اہم ہیں کیوں کہ پارٹی کے باغی اراکین اس بات پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان کو ہر صورت میں وزارت اعلیٰ سے مستعفیٰ ہونا پڑے گا۔