|
آب و ہوا کی تبدیلی پر آذر بائیجان میں ہونے والے اجلاس میں تجویز کیا گیا ہے کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک سال 2035 تک ہر سال ترقی پذیر ملکوں کو موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے 250 ارب ڈالر فراہم کریں۔
سی او پی 29 کے نام سے دارالحکومت باکو میں ہونے والے اجلاس میں اس سلسلے میں مالی معاہدے کے ڈرافٹ پر ابھی بحث جاری ہے اور اجلاس اپنے مقررہ اختتامی وقت کے بعد بھی رات گئے تک جاری ہے۔
مجوزہ معاہدے کو کئی ملکوں کی طرف سے تنقید کا سامنا رہا۔
سربراہی اجلاس میں نمائندگی کرنے والی عالمی حکومتوں کو آب و ہوا کی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے بڑے پیمانے پر فنڈنگ کے منصوبے پر اتفاق کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔
اس سلسلے میں اقوام متحدہ کے ماحولیاتی سربراہی اجلاس میں عالمی حکومتیں جمعے کو بڑے پیمانے پر فنڈنگ کے منصوبے کو حتمی شکل دینے کے لیے رات بھر کام کر رہی تھیں۔
جمعے کی رات دیر گئے حکام نے ایک معاہدے کا ڈرافٹ جاری کیا جس کے بارے میں اجلاس کے صدر کا کہنا ہے کہ امید ہے کہ کاربن مارکیٹس کے بارے میں اصولوں پر حتمی معاہدہ ہو سکتا ہے۔
خبر رساں ادارے "رائٹرز" کے مطابق اس معاہدے کو ہفتے کو ماحولیاتی مسائل سے نمٹنے کے لیے مالیاتی معاہدے کے ساتھ منظور کیا جا سکتا ہے۔
اس سے قبل مذاکرات میں معاہدے کے تحت مجوزہ رقم کے معاملے پر اجلاس میں تقسیم عیاں تھی۔
ایک طرف ترقی پذیر ممالک زیادہ امداد پر زور دے رہے تھے جبکہ دوسری طرف ترقی یافتہ ممالک مہنگے معاہدے کی مزاحمت کر رہے تھے۔
SEE ALSO: پاکستان میں ایک کروڑ 10 لاکھ بچوں کو زہریلی فضائی آلودگی کا سامنا ہے: اقوامِ متحدہجمعہ کی شام کو ختم ہونے والے اس اجلاس سے توقع کی جارہی ہے کہ معاہدے کی رقم 250 ارب ڈالر کے ہدف سے بڑھ سکتی ہے۔
اس مسئلے پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے پاناما کے لیے موسمیاتی تبدیلی کے خصوصی نمائندے وان کارلوس مونٹیری گومز نے 250 ارب ڈالر کی امداد کو ناکافی قرار دیتے ہوئے کہا،"مجھے غصہ ہے، یہ مضحکہ خیز ہے۔ صرف مضحکہ خیز۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ترقی یافتہ دنیا چاہتی ہے کہ کرہ ارض جل جائے۔"
دوسری طرف ایک یورپی مذاکرات کار نے رائٹرز کو بتایا کہ نئے مسودے میں تجویز کی گئی رقم بہت زیادہ ہے اور فنڈنگ میں حصہ ڈالنے والے ممالک کی تعداد کو بڑھانے کے لیے کافی کام نہیں کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہ کوئی بھی تجویز کی گئی اتنی بڑی رقم کے بارے میں مطمئن نہیں ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
جن حکومتوں سے مالی امداد کی توقع کی جائے گی ان میں یورپی یونین، آسٹریلیا، امریکہ، برطانیہ، جاپان، ناروے، کینیڈا، نیوزی لینڈ اور سوئٹزرلینڈ شامل ہیں۔
مسودے میں ترقی پذیر ممالک کو رضاکارانہ طور پر حصہ ڈالنے کی دعوت دی گئی ہے۔
جرمنی کی آب و ہوا اور ماحولیات کی خصوصی ایلچی جینیفر مورگن نے کہا کہ ڈیل "ابھی تک لینڈنگ گراؤنڈ پر نہیں ہے، لیکن کم از کم ہم نقشے کے بغیر ہوا میں نہیں ہیں۔"
SEE ALSO: کیا پاکستان اور بھارت کے درمیان 'کلائمیٹ ڈپلومیسی' سے آلودگی کم ہو سکتی ہے؟واضح رہے کہ امریکہ، چین اور بھارت گرین ہاوس گیسوں کا اخراج کرنے والے دنیا کے بڑے ممالک میں شامل ہیں۔
پاکستان کا عالمی سطح پر آلودگی پھیلانے میں حصہ محض ایک فیصد ہے جبکہ یہ دنیا کے ان چند ملکوں میں شامل ہے جو ماحولیاتی تبدیلی سے سیلابوں اور دوسری صورتوں میں سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔
اس اجلاس کی میزبانی کرنے والا ملک آذربائیجان دنیا میں کاربن والا ایندھن برآمد کرنے والے بڑے ملکوں میں شمار ہوتا ہے۔
بین الاقوامی توانائی ایجنسی کے مطابق 2000 کی دہائی کے اوائل میں گیس فیلڈ کی دریافت سے آذربائیجان کی برآمدات میں تیل اور گیس کا 90فیصد سے زیادہ حصہ ہے۔ اس کے پیٹرولیم کے اہم خریداروں میں کروایشیا، جرمنی، اسرائیل، اٹلی، پرتگال، اسپین، ترکی اور یوکرین شامل ہیں۔
SEE ALSO: اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں عالمی بحرانوں سے نمٹنے کے لیے ’معاہدۂ مستقبل‘ منظور
موسمیاتی پالیسی انیشی ایٹو کی ایک رپورٹ کے مطابق افریقہ کے لیے موسمیاتی تبدیلی سے متعلق فنڈنگ 2021-2022 کے دوران 44 ارب ڈالر تک پہنچ گئی، لیکن اس رقم میں سے ایک تہائی سے زیادہ قرضوں کی شکل میں پہلے سے قرضوں میں ڈوبے ہوئے ممالک کے لیے تھا۔
ماہرین کہتے ہیں کہ ترقی پذیر ممالک جو فوسل فیول یعنی کاربن کا اخراج کرنے والے ایندھن پیدا کرنے اور برآمد کرنے پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں انہیں علاقائی تعاون کو فروغ دینے اور ایک دوسرے سے رابطےکے انفرا اسٹکرچر کے ذریعے ری نیوایبل یعنی قابل تجدید توانائی کا استعمال کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
(اس خبر میں شامل زیادہ تر مواد "رائٹرز" سے لیا گیا ہے)