افغانستان سے ملحقہ پاکستان کے قبائلی ضلع شمالی وزیرستان کی بویہ چیک پوسٹ پر نامعلوم دہشت گردوں نے حملہ کر کے ایک سیکیورٹی اہلکار کو ہلاک اور تین کو زخمی کر دیا ہے۔
سیکیورٹی حکام کے مطابق اتوار کی شب ہونے والے اس حملے میں سیکیورٹی اہلکاروں کی جوابی کارروائی میں پانچ مبینہ دہشت گرد بھی ہلاک ہوئے ہیں۔
اس جھڑپ کے بعد دہشت گردوں اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ بھی جاری رہا۔ جس سے مقامی آبادی کے لوگ بھی نشانہ بنے۔
مقامی صحافیوں کے مطابق فائرنگ کے دوران قریبی گھر کے اندر ایک خاتون گولی لگنے سے زخمی ہوئی ہے۔ جنہیں میران شاہ کے ضلعی ہیڈ کوارٹرز اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔
پاکستان کی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے جاری کردہ بیان کے مطابق جدید خود کار ہتھیاروں سے لیس حملہ آوروں کے حملے میں حولدار اکبر ہلاک ہوا ہے۔ زخمی ہونے والوں میں سپاہی سعید، یاسر اور شفقت شامل ہیں۔
آئی ایس پی آر کے مطابق ہلاک ہونے والے حوالدار کی لاش اور زخمی اہلکاروں کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے ایف ٹی سی اسپتال میران شاہ منتقل کر دیا گیا ہے۔
بیان کے مطابق سیکیورٹی اہلکاروں کی جوابی کارروائی میں پانچ مبینہ دہشت گرد ہلاک ہوئے ہیں۔ تاہم ہلاک ہونے والوں کی شناخت کے بارے میں کوئی تفصیلات فراہم نہیں کی گئی ہیں۔
میران شاہ میں سول انتظامیہ کے عہدیداروں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ حملے کے بعد سیکیورٹی فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لے کر سرچ آپریشن شروع کر دیا ہے اور علاقے میں کرفیو نافذ کرتے ہوئے مرکزی شاہراہ ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند کر دی ہے۔
شمالی وزیرستان کے اس علاقے میں ذرائع ابلاغ کو رسائی حاصل نہ ہونے کے سبب آزاد ذرائع سے فوجی حکام کے ان دعووں کی تصدیق ممکن نہیں ہے۔
شمالی وزیرستان کے مختلف علاقوں میں گزشتہ چند ماہ کے دوران دہشت گردوں اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپوں میں تیزی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ ان جھڑپوں میں دونوں جانب سے دو درجن سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
دہشت گردوں اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان ہونے والی جھڑپوں پر بعض قوم پرست سیاسی جماعتیں اور افراد تحفظات کا بھی اظہار کر رہے ہیں۔
شمالی وزیرستان سے رکن قومی اسمبلی اور 'پشتون تحفظ موومنٹ' کے رہنما محسن داوڑ نے پیر کے روز متاثرہ گاؤں ھمزونی کا دورہ کیا اور مقامی افراد کے ساتھ تبادلۂ خیال کیا۔
دوسری جانب ایک اور قبائلی علاقے باجوڑ کے سرحدی علاقے سالارزئی میں پیر کی صبح نامعلوم حملہ آوروں نے قبائلی رہنما ملک ایاز پر حملہ کر کے اُنہیں شدید زخمی کر دیا ہے۔
سرحد پار افغانستان میں روپوش شدت پسند تنظیم 'تحریک طالبان پاکستان' کے ترجمان نے اس حملے کی ذمہ داری بھی قبول کی ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ افغانستان میں امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدے کے بعد سوات، شمالی وزیرستان، باجوڑ، مہمند اور دیگر علاقوں سے افغانستان فرار ہونے والے دہشت گرد اب واپس سرحدی علاقوں یا ملک بھر کے شہری علاقوں میں منتقل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔