پاکستان کے شمال مغربی شہر چترال کے تقریباً چار سو سے زائد زلزلہ متاثرین تین دنوں سے میر کھنی چیک پوسٹ کے قریب دھرنا دیے بیٹھے ہیں جن سے احتجاج ختم کروانے کے لیے حکام کی بات چیت کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
گزشتہ اکتوبر میں ایک طاقتور زلزلے کے باعث پاکستان کے شمالی علاقوں میں وسیع پیمانے پر نقصان ہوا تھا جس کا اندازہ لگانے کے بعد حکومت نے متاثرین کو امدادی رقوم فراہم کر دی تھیں۔
تاہم چترال کی تحصیل دروش سے تعلق رکھنے والے ان مظاہرین نے الزام عائد کیا ہے کہ انھیں ان کے تباہ شدہ گھروں کا معاوضہ نہیں دیا گیا اور بارہا حکام کی توجہ دلانے کے باوجود بھی ان کا مسئلہ حل نہیں کیا گیا۔
احتجاج کرنے والوں میں شامل عبدالباری نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وہ لوگ اپنے مطالبات تسلیم نہ ہونے کی وجہ سے احتجاجاً افغانستان ہجرت کرنا چاہتے تھے لیکن چترال اسکاؤٹس نے انھیں میر کھنی چیک پوسٹ سے آگے جانے سے روک دیا اور اسی بنا پر وہ سڑک پر ہی دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔
"ہمارا مطالبہ ہے کہ یہ 425 لوگ ہیں دھرنے والے ان کو چیک دیں۔ دوسرا مطالبہ ہے کہ اگر ہمیں چیک نہیں دیتے ہو تو ہمیں ہجرت کرنے دو ہم کدھر بھی جائیں گے مگر گھر نہیں جائیں گے اگر یہ مطالبے آپ کو قبول نہیں تو یہاں جو فساد ہوگا ہم اس کے لیے بھی تیار ہیں۔"
چترال کے ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر عبدالاکرم کہتے ہیں کہ مظاہرین کے مطالبات تسلیم کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اس کے لیے قواعد و ضوابط کے تحت ہی عمل کیا جائے گا جسے ماننے کے لیے فی الوقت احتجاج کرنے والے تیار نہیں۔
"وہ کہہ رہے ہیں کہ ہمیں یہیں سڑک پر پیسے دیں۔ جو طریقہ کار ہے اسی طرح سے ہی مسئلہ حل ہو سکتا ہے، ہم ان کی معلومات این ڈی ایم اے، پی ڈی ایم اے تک پہنچائیں گے۔"
ان کا کہنا تھا کہ مظاہرین سے بات چیت جاری ہے اور انھیں امید ہے کہ جلد ہی احتجاج ختم ہو جائے گا۔