شمال مغربی چین میں ان دنوں چینی اور روسی مسلح افواج کی مشترکہ فوجی مشقیں جاری ہیں، جن میں بری افواج کے علاوہ فضائی فورسز کے لڑاکا طیارے بھی حصہ لے رہے ہیں۔دونوں ملکوں کے مابین عسکری تعلقات میں یہ پیش رفت ایک ایسے وقت پر ہوئی ہے، جب خطے کے ایک اہم ملک افغانستان کو عدم استحکام اور غیر یقینی صورت حال کا سامنا ہے۔
چین اور روس کے درمیان یہ فوجی مشقیں ننکشیا ہوا کے نیم خود مختار خطے میں جاری ہیں۔ جو چین کے صوبے سنکیانگ کے مشرق میں واقع ہے۔ سنکیانگ کی سرحد کی ایک پٹی افغانستان سے ملتی ہے، اور چین کو خدشہ ہے کہ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد شدت پسندی اس کے علاقے تک پھیل سکتی ہے۔
سنکیانگ وہی صوبہ ہے، جہاں چین نے مبینہ طور پر دس لاکھ سے زائد ایغور مسلمان اقلیت کے لوگوں کو زیر حراست رکھا ہوا ہے، اور اس کا دعویٰ ہے کہ انہیں دہشت گردی اور انتہاپسندی کی مہم کے دوران گرفتار کیا گیا ہے۔جبکہ ناقدین کا کہنا ہے کہ ایغور آبادی کو حراست میں رکھنا اس اقلیتی گروپ کے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹ کے مطابق، روس اور چین امریکہ کے عالمی اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کی غرض سے باضابطہ اتحاد تشکیل دیے بغیر اپنی عسکری اور امور خارجہ کی پالیسیوں کو بتدریج مربوط شکل دے رہے ہیں۔
چین کے سرکاری خبر رساں ادارے، ژینہوا نے خبر دی ہے کہ ان فوجی مشقوں کا آغاز پیر کے روز ہوا، جب حکمراں کمیونسٹ پارٹی کے مرکزی ملٹری کمشن کے رکن، لی زوچنگ نے تقریب کی صدارت کی۔
چینی اور روسی حکام کے حوالے سے شنوا نے بتایا کہ ان فوجی مشقوں کا مقصد چین اور روس کی افواج کے درمیان انسداد دہشت گردی کی مشترکہ کارروائیوں کی نوعیت کے روابط کو مضبوط بنانا ہے۔ اور یہ کہ مشترکہ فوجی مشقیں اس عزم کا بھی اظہار اور طاقت کا مظہر ہیں کہ دونوں ملک متحد ہو کر بین الاقوامی اور علاقائی سلامتی اور استحکام کا تحفظ کر سکیں گے۔
شنوا نے بتایا کہ یہ فوجی مشقیں اس بات کا بھی مظہر ہیں کہ نئے عہد کے تقاضوں کے مطابق مربوط حکمت عملی کی نوعیت کی یہ پارٹنرشپ دونوں ملکوں کے باہمی رشتوں کو ٹھوس بنائے گی، جس سے دونوں ملکوں کے درمیان باہمی اعتماد، عملی نوعیت کے سودمند مراسم اور روابط فروغ پائیں گے۔
اطلاعات کے مطابق، ان فوجی مشقوں میں شرکت کے لیے، روسی ملٹری نے ایس یو 30 ایس ایم لڑاکا فورس اور بکتربند انفنٹری کا دستہ بھیجا ہے۔
SEE ALSO: روس کی آرکٹک میں فوجی مشقیں: مقصد کیا ہے؟روسی وزارت دفاع کے بیان کے مطابق، اس لڑاکا تربیت میں شرکت کا مقصد روس چین تعلقات کو وسعت اور فروغ دینا ہے، جس سے مربوط پارٹنرشپ اور حکمت عملی کے حامل روابط بڑھیں گے، اور دونوں ملکوں کے مابین فوجی سطح کا تعاون اور دوستی فروغ پائے گی، جس سے روس اور چین کی جانب سے اس عزم کا بھی اظہار ہوتا ہے کہ دونوں دہشت گردی کی لڑائی میں ساتھ دیں گے، اور خطے کے امن اور استحکام کے لیے مشترکہ کوششیں مضبوط ہوں گی۔
روس جنوبی بحیرہ چین پر چین کے دعوے کی حمایت کرتا ہے۔ اس ضمن میں آبی وسائل کی سیکیورٹی کے موضوع پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ہونے والے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کے دوران پیر کے دن چین کے وفد کی امریکی وفد کے ساتھ الفاظ کی جھڑپ ہوئی۔
کئی عشروں سے جنوبی بحیرہ چین کے علاقے پر چین، تائیوان، اور آسیان کے رکن ملک برونائی، ملائیشیا، فلپائن اور ویت نام دعوے دار رہے ہیں اور وہ متنازع آبی وسائل کو اپنی حدود قرار دیتے ہیں۔
چین نے حالیہ برسوں کے دوران اس متنازع علاقے کے جزیروں پر قبضہ جما کر ان پر میزائل نصب کر دیے ہیں، جس کے باعث امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ ساتھ متحارب دعوے داروں کے درمیان تناؤ میں اضافہ ہوا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے اس حکمت عملی کے حامل متنازع علاقے میں چین کی جانب سے قبضے اور دعوے کے ماحول کو بڑھاوا دینے پر انتباہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ جارحانہ رویے کے مظاہرے سے سیکیورٹی اور کامرس کے حوالے سے شدید عالمی نتائج برآمد ہوں گے۔
بلنکن کے بقول، آبی وسائل پر غیر قانونی دعوے کا بیانیہ اور اشتعال انگیزی کے نتیجے میں سمندر سے گزرنے والے جہازوں کے ساتھ خطرناک نوعیت کے واقعات جنم لے چکے ہیں؛ جس اشتعال انگیزی کا مقصد جائز طور پر آبی وسائل تک رسائی کے متمنی ملکوں کو خوفزدہ اور خائف کرنا ہے اور جو اقدام ناجائز حربوں کے زمرے میں آتے ہیں۔
دوسری جانب، چین کے معاون سفیر، دائی بنگ نے الزام لگایا ہے کہ جنوبی بحیرہ چین کے امن اور استحکام کو سب سے بڑا خطرہ امریکہ سے لاحق ہے؛ جنہیں انہوں نے سلامتی کونسل میں تقریر کے دوران محض سیاسی دھمکیاں قرار دیا۔
چین نے سال 2016ء میں ہونے والے ثالثی کے بین الاقوامی فیصلے کو تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا جس میں جنوبی بحیرہ چین پر چین کے دعووں کو ناجائز قرار دیا گیا تھا۔