چین میں حکومتی سرپرستی میں قائم بودھ ایسوسی ایشن کے سربراہ نے اپنے خلاف جنسی زیادتی کے الزامات کی تحقیقات شروع ہونے کے بعد بدھ کے روز اپنا عہدہ چھوڑ دیا۔
یوچنگ کمیونسٹ پارٹی کے رکن اور بیجنگ میں قائم لانگ چوان خانقاہ کے سربراہ ہیں۔ وہ ایک ایسی نمایاں شخصیت کے طور پر سامنے آئے ہیں جنہیں چین میں تیزی سے پھیلتی ہوئی می ٹو موومنٹ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
چین میں’ می ٹو‘نامی ہیش ٹیگ تحریک اس سال کے ابتدا میں شروع ہو ئی تھی جس میں خواتین نے اپنے خلاف جنسی زیادتیوں کے واقعات پر زبانیں کھولنی شروع کیں، خاص طور پر ان لڑکیوں نے جن کا تعلق یونیورسٹیوں سے ہے۔
پچھلے مہینے انٹرنیٹ پر گردش کرنے والی 95 صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ میں دو بودھ راہبوں نے یوچنگ پر الزام لگایا کہ انہوں نے کم ازکم چھ خواتین کو ٹیکسٹ پیغامات بھیجے جن میں ان سے جنسی تعلقات استوار کرنے کے لیے یا تو کھلم کھلا دھمکی دی گئی تھی یا ان کی خوشامد کی گئی تھی۔
مذہبی أمور سے متعلق چین کے اعلیٰ حکام نے یہ الزامات منظر عام پر آنے کے بعد تحقیقات شروع کر دی ہیں۔
یوچنگ نے، جن کی عمر 51 سال ہے، بودھ ایسوسی ایشن آف چائنا کے ایک اجلاس کے دوران اپنا عہدہ چھوڑنے کا اعلان کیا۔
ایسوسی ایشن کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ کونسل نے یوچنگ کا استعفی منظور کر لیا ہے اور اب وہ بودھ ایسوسی ایشن آف چائنا کے صدر نہیں رہے۔
یوچنگ ایک معروف مذہبی شخصیت ہیں اور سوشل میڈیا پر ان کے فالورز کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ تاہم یوچنگ کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر یکم اگست سے کچھ پوسٹ نہیں کیا گیا۔ اس سے قبل ایک بیان میں جنسی زیادتیوں کے الزامات کو مسترد کیا گیا تھا۔
جن دو بودھ راہبوں نے یوچنگ پر الزامات لگائے ہیں، وہ پہلے ہی خانقاہ سے نکالے جا چکے ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ 4 عورتوں نے یوچنگ کی خواہشات پوری کیں تھیں۔
حکام میں سے ایک نے سوشل میڈیا پر کہا ہے کہ انہیں اس لیے سامنے آنا پڑا ہے کیونکہ متعلقہ عہدے داروں نے کہا تھا کہ اس معاملے پر تحقیقات نہیں ہو سکتیں۔
چین کے قانون میں جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کی کوئی وضاحت موجود نہیں اور یہ ہی کسی قومی ضابطے میں یہ بتایا گیا ہے کہ اسکولوں اور کام کی جگہوں پر جنسی حملے کے واقعات سے کس طرح نمٹا جائے گا۔