چین کو سنکیانگ میں کشیدگی کا سامنا

چین کو سنکیانگ میں کشیدگی کا سامنا

چین کے دور دراز شمال مغربی علاقے سنکیانگ میں بیشتر آبادی یغور مسلمانوں کی ہے جو ایک طویل عرصے سے چین کی حکمرانی کے خلاف رہے ہیں۔ حالیہ برسوں کے دوران مقامی آبادی اور سیکورٹی فورسز کے درمیان تشدد کے واقعات ہوئے ہیں لیکن یہ بات متنازع ہے کہ غلطی پر کون ہے ۔

دسمبر کے آخر میں چینی حکومت نے سنکیانگ میں گولیاں چلنے کی خبر دی جس میں آٹھ افراد ہلاک ہوئے ۔ چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ہونگ لئی نے واقعات کا سرکاری موقف بیان کرتے ہوئے کہا کہ یہ پولیس کی کارروائی تھی جس کا مقصد دو گلہ بانوں کو چھڑانا تھا جنہیں ایک دہشت گرد گروپ نے اغوا کر لیا تھا۔ چینی حکومت کے بقول، یہ گروپ غیر ملکی جہادی کیمپوں کی طرف جا رہا تھا۔

سرکاری ژینہوا نیوز ایجنسی نے کہا ہے کہ اس واقعے میں 15 متشدد دہشت گردوں کا ایک گروپ ملوث تھا۔ رپورٹ میں یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ آیا یہ دہشت گرد یغور نسل کے لوگ تھے ۔ یہ ایک مسلمان اقلیت ہے اور ہوتان کاؤنٹی میں جہاں تشدد کا یہ واقعہ ہوا، تقریباً 90 فیصد لوگوں کا تعلق اسی نسلی گروپ سے ہے۔ آٹھ لوگوں کی ہلاکت کے علاوہ، گولیوں کے تبادلے میں چار افراد زخمی ہوئے، اور چار کو گرفتار کر لیا گیا۔ ہونگ لئی کہتے ہیں کہ یہ یقیناً دہشت گردی کی کارروائی تھی۔

ماضی میں جب کبھی سنکیانگ میں اس قسم کے واقعات ہوئے ہیں، بیرونِ ملک رہنے والے یغور گروپوں نے واقعات کے بارے میں چینی حکومت کے بیان کو مسترد کر دیا ہے، اور اس بار بھی ایسا ہی ہوا۔

ورلڈ یغور کانگریس میونخ میں جلا وطن یغور باشندوں کا ایک گروپ ہے۔ اس گروپ کے ترجمان Dilshat Rexit نے کہا کہ اس واقعے میں جن 15 یغورز کو ملوث کیا گیا ہے، وہ در اصل چینی حکومت کے تحت نا خوش تھے، اور ملک سے فرار ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔ انھوں نے اس الزام سے انکار کیا کہ اس گروپ کا کسی دہشت گرد تنظیم سے کوئی تعلق تھا۔

Rexit نے چینی حکومت پر الزام لگایا کہ وہ یغورعوام کا تعلق عالمی دہشت گردی سے قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہے تا کہ اسے سنکیانگ میں انہیں کچلنے کا جواز مل جائے۔ انھوں نے کہا’’بہت سے یغور چینی حکومت کی طرف سے اقلیت کی کلچرل اور مذہبی سرگرمیوں میں روز افزوں مداخلت پر پریشان ہیں، اور علاقے میں جو بے چینی پھیلی ہوئی ہے، اس کی وجہ چینی حکومت کی یہ پالیسیاں ہیں۔‘‘

اس سال کے شروع میں 18 یغور مردوں نے، ہوتان کے پولیس اسٹیشن پر بموں اور چاقوؤں سے حملہ کیا۔ انھوں نے دو پولیس والوں کو ہلاک کر دیا اور کئی کو یرغمال بنا لیا۔ یہ لوگ در اصل مسلمان عورتوں کے نقاب ڈالنے پر پابندی کے خلاف تھے۔

Raffaello Pantucci شنگھائی میں رہتے ہیں اور لندن کے کنگز کالج کے انٹرنیشنل سنٹر فار دی اسٹڈی آف ریڈیکلائزیشن میں ایسو سی ایٹ فیلو ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ ہوتان میں ہونے والے واقعات کی مختلف توجیہات پیش کی گئی ہیں، لیکن ایک بات دونوں میں مشترک ہے۔ ’’یہ بات واضح ہے کہ ان دونوں واقعات میں اس بات پر اتفاقِ رائے موجود ہے کہ بعض لوگ یہ علاقہ چھوڑ کر جانے کی کوشش کر رہے تھے ۔ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ پس منظر میں کسی قسم کی کشیدگی موجود ہے۔‘‘

Pantucci یہ بات مانتے ہیں کہ یغور میں چند چھوٹے چھوٹے انتہا پسند گروپ موجود ہیں جنھوں نے کچھ دھمکی آمیز وڈیو آن لائن پوسٹ کیے ہیں۔ لیکن مجموعی طور پر یغور میں دہشت گردی کا رجحان موجود نہیں ہے ۔ لیکن وہ انتباہ کرتے ہیں کہ اگر چینی حکومت نے بہت زیادہ سخت پالیسیاں اختیار کیں، تو اس طرح یغور بنیاد پرستی کی طرف مائل ہو سکتے ہیں۔

’’مذہبی رجحان کے کسی بھی اظہار کو انتہا پسندی قرار دینے سے، آپ ایسے لوگوں کو جو مذہب کو سکون کا ذریعہ سمجھتے ہیں، زیادہ خطرناک اور پُر تشدد سمت میں دھکیل دیتے ہیں۔‘‘

سنکیانگ کے دارالحکومت ارمچی میں جو نسلی کشیدگی آہستہ آہستہ بڑھ رہی تھی، وہ جولائی 2009 میں پھٹ پڑی ۔ یغور جنوبی چین میں نسل کی بنیاد پر ہلاکت کے ایک واقعے کے خلاف احتجاج کر رہے تھے ۔ یہ احتجاج پُر تشدد ہو گیا اور یغور نے چین کی ہان نسل کی اکثریتی آبادی کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ۔ تقریباً 200 افراد ، جن میں سے بیشتر ہان چینی تھے ہلاک ہو گئے ۔