چین نے خبردار کیا ہے کہ وہ ہانگ کانگ کو چین سے الگ کرنے کی کوششیں برداشت نہیں کرے گا۔ چین اور ہانگ کانگ ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔
خبر رساں ادارے رائٹرز نے چین کے سرکاری اخبار میں چینی حکام کے شائع ہونے والے بیان کا حوالہ دیا ہے۔ جس میں اتوار کے روز ہانگ کانگ میں امریکی قونصل خانے کے سامنے ہونے والے احتجاج پر سخت ردعمل ظاہر کیا گیا ہے۔
چینی حکام کا کہنا ہے کہ اتوار کے روز امریکی قونصل خانے کے باہر ہونے والے مظاہروں سے ثابت ہو گیا کہ ان کے پیچھے غیر ملکی قوتیں کارفرما ہیں۔ حکام نے مظاہرین کو خبردار کیا ہے کہ حکومت کے صبر کا مزید امتحان نہ لیا جائے۔
چین کے حکام اس سے قبل بھی یہ الزام لگاتے رہے ہیں کہ چین مخالف عالمی قوتیں ہانگ کانگ میں ہونے والے مظاہروں کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔
چینی اخبار کے اداریے میں مزید کہا گیا ہے کہ ہانگ کانگ میں جمہوریت اور انسانی حقوق کا مسئلہ نہیں۔ بلکہ یہ مظاہرے غیر ملکی عناصر کے گھناؤنے کھیل کا شاخسانہ ہیں۔ لہذٰا مظاہرین اور عالمی قوتیں سن لیں کہ ایسی تمام کوششوں کو سختی سے کچل دیا جائے گا۔
سرکاری خبر رساں ادارے ژن ہوا کے مطابق چینی حکام نے واضح کر دیا ہے کہ ہانگ کانگ میں قانون کی عمل داری کو یقینی بنایا جائے گا۔ لیکن اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو مظاہرین کو بھاری قیمت چکانی پڑی گی۔
خیال رہے کہ ہانگ کانگ میں رواں سال جون میں شروع ہونے والے حکومت مخالف احتجاجی مظاہروں میں مسلسل شدت آ رہی ہے۔ یہ مظاہرے ہانگ کانگ کی حکومت کی جانب سے ملزمان کی چین حوالگی سے متعلق ایک قانونی بل متعارف کروانے پر شروع ہوئے تھے۔
اس بل کے تحت ہانگ کانگ میں جرائم کے مرتکب افراد کا ٹرائل چین میں کرنے کی تجاویز شامل تھیں۔ ہانگ کانگ کے شہریوں نے مجوزہ بل کی مخالفت کرتے ہوئے احتجاج شروع کر دیا تھا۔ ناقدین نے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ چین میں رائج سخت قوانین اور کمزور نظام انصاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سبب بن سکتے ہیں۔
گو کہ حکومت نے احتجاج کے باعث یہ بل واپس لے لیا تھا تاہم احتجاج کا سلسلہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔
اتوار کو ہزاروں مظاہرین نے ہانگ کانگ میں امریکہ کے قونصل خانے کے سامنے احتجاج کیا تھا۔ مظاہرین نے بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے جن پر امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ ہانگ کانگ میں جمہوریت کی بحالی کے لیے مداخلت کریں اور ہانگ کانگ کو آزاد کروائیں۔
امریکہ اس سے قبل بھی چین کو ہانگ کانگ کے معاملے پر احتیاط سے کام لینے کی تنبیہ کرتا آیا ہے۔ چین اسے اپنا اندرونی معاملہ قرار دیتا ہے۔ تاہم احتجاج کے پیش نظر اس نے ہانگ کانگ سے متصل علاقوں میں بھاری نفری تعینات کر رکھی ہے۔
ہانگ کانگ میں مظاہرین چیف ایگزیکٹو کیری لیم کے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں تاہم چین کی مرکزی حکومت کیری لیم کی حمایت کر رہی ہے۔
ہانگ کانگ 1997 تک برطانیہ کے زیر اثر تھا تاہم چین اور برطانیہ کے درمیان طے پانے والے ایک معاہدے کے بعد یہ چین کے زیر اثر چلا گیا تھا۔ معاہدے میں یہ شامل تھا کہ ہانگ کانگ کی خود مختار حیثیت برقرار رکھی جائے گی تاہم مظاہرین کو گلہ ہے کہ چین کی مرکزی حکومت اس کی خود مختاری سلب کرنا چاہتی ہے۔