دلائی لاما کی تبت میں واپسی کا مطالبہ

دلائی لاما کہتے ہیں کہ وہ تبت کے لوگوں کے لیے چین میں زیادہ خود مختاری چاہتے ہیں اور ان کی شناخت، زبان، مذہب اور کلچر کے تحفظ کی ضمانتوں کے طلبگار ہیں۔ لیکن چین کا خیال ہے کہ دلائی لاما کا اصل مقصد تبت کی آزادی ہے۔

تبت میں خود کو آگ لگانے والے احتجاجیوں کا ایک بنیادی مطالبہ یہ ہے کہ چین دلائی لاما کو تبت واپس آنے کی اجازت دے۔ تبت کے امور کے بعض تجزیہ کار کہتے ہیں کہ چین دلائی لاما کے ساتھ رابطہ نہ کرکے مصالحت کا ایک اہم موقع گنوا رہا ہے۔ لیکن چین کے نقطۂ نظر سے تبت کے جلا وطن روحانی لیڈر ہی مسئلے کی اصل وجہ ہیں، اس کا حل نہیں۔

یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ چین دلائی لاما پراعتماد نہیں کرتا۔ انہیں چین میں تبت کے علاقے میں بے چینی کا ذمے دار ٹھرایا جاتا ہے اور چین کے سرکاری میڈیا میں اور انٹرنیٹ کے ’چیٹ رومز‘ میں ان پر اکثر سخت تنقید کی جاتی ہے۔

گذشتہ ہفتے چین کی سرکاری ویب سائٹ ’چائنہ تبت آن لائن‘ میں ایک تبصرہ شائع کیا گیا جس میں دلائی لاما پر نہ صرف لوگوں کو خود سوزی پر اکسانے کا الزام عائد کیا گیا بلکہ یہ بھی کہا گیا کہ وہ نازیوں کی طرز کے نسلی امتیاز کو فروغ دے رہے ہیں۔

چین میں تبت کے امور کے ماہر کہتے ہیں کہ اگرچہ خود کو آگ لگانے والے لوگ دلائی لاما کی واپسی کا مطالبہ کر رہے ہیں، لیکن تبت میں دلائی لاما کا اثر و رسوخ کم ہوتا جا رہا ہے۔ چینی حکام نے خود سوزی کو دہشت گردی کا نام دیا ہے اور کہا ہے کہ جو لوگ خود کو آگ لگاتے ہیں وہ بیشتر معاشرے کے ٹھکرائے ہوئے اور جرائم پیشہ لوگ ہوتے ہیں۔

بیجنگ میں ’چائنہ تبتالوجی ریسرچ سینٹر‘ کے تانزن لیندپ کہتے ہیں کہ ’’جب ہم کسی تاریخی حل کی بات کرتے ہیں، تو ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ دلائی لاما 1959 میں خود فرار ہو کر بھارت چلے گئے تھے۔ کسی نے ان کو وہاں نہیں بھیجا تھا۔ مرکزی حکومت نے انہیں وہاں نہیں بھیجا، بلکہ وہ خود وہاں گئے۔ اب 50 برس گذر چکے ہیں اور تبت کا معاملہ تاریخ کا حصہ بن گیا ہے۔ مرکزی حکومت نے انہیں واپس آنے سے کبھی نہیں روکا ہے۔ ہم ہمیشہ یہی امید کرتے رہے ہیں کہ وہ واپس آ جائیں گے لیکن انھوں واپس نہ آنے کا فیصلہ کیا ہے‘‘۔

(فائل فوٹو)


تبت کے امور کے بعض مغربی ماہرین کا خیال ہے کہ دلائی لاما اور چینی حکام کے درمیان کسی بھی قسم کے مذاکرات کے لیے وقت تنگ ہوتا جا رہا ہے۔ تبت کے جلا وطن لیڈر بوڑھے ہو گئے ہیں اور آخری بار دونوں طرف کے نمائندے 2008 میں ملے تھے۔ کولمبیا یونیورسٹی کے رابرٹ بیرنیٹ تبت کے ماہر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’تبت کے اندر یہ مسئلہ اب صرف چینی حکومت کے ساتھ بے اطمینانی کا مسئلہ نہیں رہا۔ تبت کے بہت سے لوگ مایوس ہوتے جا رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ چین پر مطلق اعتبار نہیں کیا جا سکتا اور چین کے ساتھ آپ کوئی مصالحت نہیں کر سکتے‘‘۔

دلائی لاما کہتے ہیں کہ وہ تبت کے لوگوں کے لیے چین میں زیادہ خود مختاری چاہتے ہیں اور ان کی شناخت، زبان، مذہب اور کلچر کے تحفظ کی ضمانتوں کے طلبگار ہیں۔ لیکن چین کا خیال ہے کہ دلائی لاما کا اصل مقصد تبت کی آزادی ہے۔

ٹیوپیٹن جنپا دلائی لاما کے انگریزی مترجم ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ دلائی لاما کہہ چکے ہیں کہ تبت کے لوگ آزادی کے مطالبے سے دستبردار ہونے کو تیار ہیں اور پیپلز ریپبلک آف چائنا کے گھرانے میں شامل ہونا چاہتے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ چین میں اتنا حوصلہ نہیں ہے کہ وہ کسی قسم کا حل قبول کر سکے۔

’’ہم کہہ سکتے ہیں کہ چین کی حکمت عملی یہ معلوم ہوتی ہے کہ موجودہ دلائی لاما کے رخصت ہونے کا انتظار کیا جائے۔ ان کا خیال ہے کہ دلائی لاما کے جانے کے بعد آزادی کی تحریک خود بخود ختم ہو جائے گی بین الاقوامی برادری مزید توجہ نہیں دے گی اور بالآخر یہ مسئلہ باقی نہیں رہے گا۔ لیکن میرے خیال میں یہ بہت بڑا جوا ہے‘‘۔

وہ کہتے ہیں کہ چین نے ہانگ کانگ میں جو نظام قائم کیا ہے تبت کے لوگ اس سے ملتا جلتا حل چاہتے ہیں۔

’’ثقافتی اعتبار سے ہانگ کانگ کے لوگ چین سے کہیں زیادہ قریب ہیں لیکن ہانگ کانگ کی تاریخ اور اس کی اقتصادی اہمیت کی وجہ سے چین نے مقامی طور پر ہانگ کانگ میں نظم و نسق کا ایک خاص ماڈل قائم کیا ہے۔ تبت کے لوگوں کا خیال ہے کہ چین تبت میں بھی ایسا ہی کر سکتا ہے لیکن جب تبت کا سوال آتا ہے تو ایسا لگتا ہے کہ چین مفلوج ہو کر رہ گیا ہے‘‘۔

اس کے باوجود چین کے لیڈروں نے احتجاج کرنے والوں کے ساتھ حال ہی میں کچھ ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔ ایک ممکنہ علامت کہ چین شاید صورت حال کو مختلف زاویے سے دیکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔

سرکاری اخبار گلوبل ٹائمز میں شائع ہونے والی رپورٹ سے ظاہر ہوتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق چینی حکام نے حال ہی میں 20,000 عہدے داروں کو تبت کے 5,000 سے زیادہ گاؤں کے دوروں پر بھیجا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان دوروں کا مقصد یہ تھا کہ سرکاری اداروں کے عہدے دار گاؤں والوں کے ساتھ رہیں ان کے ساتھ کھائیں پئیں، ان کے مطالبوں کو سمجھیں اور ان کے مسائل کو بر وقت انداز میں حل کرنے میں مدد دیں۔