برسلزمیں قائم ایک تھنک ٹینک کی نئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چینی حکومت کی ایجنسیاں ’ساؤتھ چائنہ سی‘ کے علاقے میں کشیدگی میں اضافہ کر رہی ہیں کیوں کہ اس متنازعہ علاقے کے بارے میں ان کی کوئی یکساں پالیسی نہیں ہے۔
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ جیسے جیسے ’ساؤتھ چائنہ سی‘ میں چین اور دوسرے ملکوں کے درمیان کشیدگی بڑھ رہی ہے، چینی حکومت کی مختلف ایجنسیوں کے درمیان آپس میں طاقت کی کشمکش میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ان ایجنسیوں کو خارجہ امور کا کوئی تجربہ نہیں ہے اور اس متنازعہ علاقے میں ان کی پالیسی میں کوئی یکسانیت نہیں ہے۔
انٹرنیشنل کرائسس گروپ ’آئی سی جی‘ کا کہنا ہے کہ چین نے اس علاقے پر اپنے تاریخی دعوؤں پر زور دے کر قوم پرستی کے جذبات کو ہوا دی ہے اور کشیدگی میں اضافہ کر دیا ہے۔
بیجنگ میں انٹرنیشنل کرائسس گروپ کی سٹیفنی کیلان البرنڈٹ کہتی ہیں کہ اس علاقے میں امریکہ کی بڑھتی ہوئی فوجی طاقت کی وجہ سے بھی علاقے کے ملکوں میں طاقت کا توازن درہم برہم ہو گیا ہے۔
’’پورے علاقہ اس کشیدگی سے متاثر ہوا ہے۔ ساؤتھ چائنہ سی سے دور، میانمار پر اور بھارت پر بھی اس کا اثر پڑا ہے۔ یہ بات چین کو سخت نا پسند ہے کیوں چین سمجھتا ہے کہ یہ اس کا علاقہ ہے۔ اس نے علاقے میں فوجی طاقت میں اضافہ کیا ہے، جس کے نتیجے میں یہ ملک خود کو اور غیر محفوظ سمجھنے لگتے ہیں اور امریکہ سے کہتے ہیں کہ وہ اپنی موجودگی میں اضافہ کرے۔‘‘
امریکہ ایک عرصے سے علاقے کے ملکوں کے ساتھ سالانہ فوجی مشقیں کرتا رہا ہے لیکن ’ساؤتھ چائنہ سی‘کی کشیدگیوں کی وجہ سے ان سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھی جا رہی ہے۔ اس مہینے کے شروع میں امریکہ اور فلپائن نے اپنی سالانہ بحری مشقیں کیں اور چین اور روس نے علاقے میں اپنی مشترکہ فوجی مشقیں شروع کر دی ہیں۔
سنگا پور کی نیشنل یونیورسٹی کے پروفیسر ہیونگ جینگ کہتے ہیں کہ ’’دو ملکوں کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ چین اقتصادی مرکز ہے جب کہ امریکہ اور اس کے اتحادی سیکیورٹی کا مرکز ہیں۔ لہٰذا تمام ملک اس مشکل میں پھنس گئے ہیں۔ اقتصادی طور سے چین کے ساتھ چلنے کے سوا ان کے پاس اور کوئی چارہ نہیں ہے کیوں کہ چین علاقے کے ہر ملک کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔ یہاں تک کہ جاپان اور جنوبی کوریا کا بھی جو امریکہ کے اتحادی ہیں۔ دوسری طرف وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ جہاں تک فوجی طاقت کا سوال ہے تو امریکہ اب بھی سب سے زیادہ طاقتور ہے۔‘‘
حالیہ برسوں میں ایشیائی ممالک انتہائی تیز رفتار سے اسلحہ خریدتے رہے ہیں اور یہ تشویش پیدا ہو گئی ہے کہ اسلحہ کی دوڑ شروع نہ ہو جائے۔ لیکن اب تک اختلافات سویلین بحری جہازوں اور ماہی گیری کی کشتیوں تک محدود رہے ہیں۔
اسٹفینی کہتی ہیں کہ کشتیوں کو سمندر میں تعینات کرنا آسان ہوتا ہے۔ اس طرح تصادم اور چھوٹی موٹی جھڑپیں زیادہ عام ہو جاتی ہیں۔ ’’ہو یہ رہا ہے کہ ایک طرح سے کوسٹ گارڈ کی اسلحہ کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ یہ خطرناک بات ہے کیوں کہ بحری افواج سے عام طور سے زیادہ خطرہ محسوس ہوتا ہے لیکن انہیں جنگ کے لیے تعینات کرنا زیادہ مشکل ہوتا ہے۔‘‘
ساؤتھ چائنہ سی سے ہزاروں ماہی گیروں کو روزی ملتی ہے۔ لیکن بے تحاشا مچھلیاں پکڑنے کی وجہ سے آلودگی اور ایشیا کی روز افزوں آبادی کا پیٹ بھرنے کی کوشش میں ماہی گیر ساحلی علاقوں سے زیادہ دور ’ساؤتھ چائنہ سی‘ کے متنازعہ پانیوں میں مچھلی پکڑنے لگے ہیں۔
اگرچہ اپنی بڑھتی ہوئی اقتصادی اور فوجی طاقت کی وجہ سے ہو سکتا ہے کہ چین اس علاقے پر اپنی ملکیت کے دعوے میں زیادہ سرگرم ہو جائے، لیکن بہت سے ملک جیسے ویتنام، علاقے میں زیادہ جارحانہ رویے کا مظاہرہ کررہے ہیں۔
اسٹیفنی کہتی ہیں کہ ’’ضروری ہے کہ ’ساؤتھ چائنہ سی‘میں چین کا رویہ بڑی حد تک دوسرے ملکوں کے رویے کا رد عمل ہے۔ علاقے کے دوسرے ملک بھی اپنی ملکیت کے دعووں اور متنازعہ پانیوں میں اقتصادی سرگرمیوں میں اضافہ کر رہے ہیں۔‘‘
علاقے کے ملکوں نے مذاکرات کے ذریعے اپنے تنازعات حل کرنے کی کوشش کی ہے اور ایک طویل عرصے سے آسیان کا یہ ہدف رہا ہے کہ تمام ملک ایک ضابطۂ اخلاق پر متحد ہو جائیں۔ تاہم ان کوششوں سے علاقے کی ملکیت کے تنازعے حل نہیں ہو سکے ہیں۔ ادھر قوم پرستی کے جذبات کو ہوا دینے کی وجہ سے، مسئلے کا حل اور بھی مشکل ہو گیا ہے۔
اسٹفینی کا کہنا ہے کہ ’’علاقے کی ملکیت کے مسائل کو حل کرنے کے مذاکرات میں سمجھوتہ کرنا ضروری ہو گا۔ مشکل یہ ہے کہ فلپائن اور ویتنام سمیت بعض ملکوں کے لیے اپنے عوام کو مطمئن کرنا مشکل ہوگا کیوں کہ وہ کئی عشروں سے یہ کہتےرہے ہیں کہ ان میں سے بعض بحری علاقے ان کے اپنے ہیں ، اور حکومت کو ان معاملات میں مصالحت کرنی ہوگی۔‘‘
اس مہینے چین اور فلپائن کے درمیان ایک متنازعہ علاقے سکاربروہ سوحل کے بارےمیں سخت کشیدگی رہی ہے۔ دونوں ملک اس علاقے کے دعوے دار ہیں۔ ایک چینی اخبار نے انتباہ کیا ہے کہ اس آبی گذر گاہ کے سوال پر فلپائن کے خلاف چھوٹے پیمانے پر جنگ ہو سکتی ہے۔
ہینونگ جینگ کہتے ہیں کہ اس سخت لب و لہجے کی وجہ چین کی داخلی سیاست بھی ہے۔
’’چین آج کل قیادت میں تبدیلی کے عمل سے گذر رہا ہے اور اعلیٰ حکمراں طبقے کے تمام ارکان اس تبدیلی کے لیے تیار ہو رہے ہیں۔ لہٰذا وہ (ساؤتھ چائنہ سی) جیسے قومی مفادات کے معاملے میں کمزوری کا تاثر دینے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔‘‘
نومبر میں چین نیشنل پارٹی کانگریس میں اقتدار میں تبدیلی کی تیاری کر رہا ہے۔ اس دوران امکان یہی ہے کہ متنازعہ علاقے کے بارے میں جارحانہ تبصرے اور زور دار بیان جاری رہیں گے۔