چین: حکام کا کرونا وائرس کے پھیلاؤ میں کمی لانے کا دعویٰ

فائل فوٹو

چین میں حکام دعویٰ کر رہے ہیں کہ حکومت کے حفاظتی اقدامات کے باعث کرونا وائرس کے پھیلاؤ میں کم آ رہی ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اتوار کے روز تک چین میں وائرس سے متاثر ہونے والے مجموعی کیسز کی تعداد 68500 تک پہنچ گئی ہے۔ جب کہ اس وائرس سے ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 1665 ہو گئی ہے۔

چین کے نیشنل ہیلتھ کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اتوار کو 2009 نئے کیسز سامنے آئے جو کہ گزشتہ روز سے کم ہیں گزشتہ روز 2641 کیسز کا اندراج ہوا تھا۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ 24 گھنٹوں میں وائرس سے 142 افراد کی موت واقع ہوئی۔ ایک روز قبل وائرس سے 143 افراد ہلاک ہوئے تھے یوں ہلاکتوں میں گزشتہ روز سے ایک کی کمی آئی ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو کیسے روکا جا سکتا ہے؟

کمیشن کے مطابق اتوار ہو جن افراد کی ہلاکت ہوئی ان میں سے 139 کا تعلق وائرس سے سب سے زیادہ متاثرہ صوبے ہوبے میں سے تھا جب کہ باقی چار کی موت دیگر علاقوں میں ہوئی۔

واضح رہے کہ صوبہ ہوبے اور اس کے دارالحکومت ووہان کو اس وائرس کے پھیلاؤ کا بڑا مرکز سمجھا جا رہا ہے۔ حکومت نے ووہان کے شہریوں کو گھروں سے نہ نکلنے کی ہدایات بھی جاری کی ہیں۔

سب سے زیادہ ہلاکتیں بھی ووہان میں ہوئی ہیں۔ ووہان ایک کروڑ 10 لاکھ سے زائد نفوس پر مشتمل شہر ہے جہاں سے یہ مہلک وبا دسمبر میں پھیلنا شروع ہوئی تھی۔

کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے باعث کی چین کی معیشت پر بھی منفی اثر پڑ رہا ہے۔ چین میں نئے قمری سال کی چھٹیوں میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ سے توسیع کی گئی تھی۔ البتہ اب چھٹیاں ختم ہونے کے بعد لوگ بیجنگ پہنچنا شروع ہو گئے ہیں جنہیں 14 روز قرنطینہ میں رہنے کے احکامات دیے گئے ہیں۔

چین کے علاوہ دنیا کے دو درجن سے زائد ملکوں میں کرونا وائرس کے 450 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جب کہ تین افراد کی ہلاکت بھی ہوئی ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

کیا کرونا وائرس کی تشخیص آسان ہے؟

خیال رہے کہ کرونا وائرس سے ہونے والی ہلاکتوں کی شرح دو فی صد ہے۔ لیکن یہ اس صدی میں پھیلنے والی دیگر بیماریوں کی نسبت بہت تیزی سے پھیل رہا ہے۔

چین کے صوبے ہوبے اور اس کا دارالحکومت 23 جنوری سے لاک ڈاؤن کا شکار ہے۔ وہاں تعلیمی ادارے، دفاتر اور کارخانے بند ہیں جب کہ زیادہ تر سفر کی سہولیات معطل ہیں۔

چین کے ہیلتھ کمیشن کے ترجمان می فنگ کا کہنا ہے کہ حکام کی جانب سے وائرس کے پھیلاؤ کے لیے شروع کی گئی مہم کے اثرات سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ کرونا وائرس کو کنٹرول کرنے کے اثرات سامنے آ رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ صوبہ ہوبے میں طبی سہولیات میں مزید بہتر اور حفاظتی اقدامات کی وجہ سے شدید نوعیت کے کیسز میں کمی ہوئی ہے۔

اعداد و شمار کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ جنوری کے آخر میں شدید نوعیت کے کیسز سامنے آنے کی شرح 32 فی صد سے زیادہ تھی جب کہ ہفتے کو شدید نوعیت کے 21 فی صد کیسز سامنے آئے۔

می فنگ نے کہا کہ معمولی نوعیت کے کیسز کو فوری طور پر دیکھا جس رہا ہے تا کہ اس وائرس کا فوری تدارک ہو۔

حکومت نے صوبہ ہوبے میں ٹرانسپورٹ کے ذرائع پر بدستور پابندی عائد کی ہوئی ہے تاہم ہنگامی امداد دینے کی گاڑیاں چلائی جا سکتی ہیں۔ اسی طرح کاروباری اداروں کو بھی آئندہ نوٹس تک کاروبار بند رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

کرونا وائرس سے پاکستان کو کتنا خطرہ ہو سکتا ہے؟

واضح رہے کہ چین سے باہر اب تک 24 سے زائد ممالک میں کرونا وائرس سے متاثرہ مریض سامنے آئے ہیں۔ ان 500 کے قریب کیسز میں بھی زیادہ تر افراد وہ ہیں جنہوں نے چین کے صوبے ہوبے کا سفر کیا تھا۔ اسی طرح اس وائرس سے جاپان، ہانگ کانگ، فلپائن اور فرانس میں ایک ایک ہلاکت کی تصدیق ہوئی ہے۔

کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے باعث کی چین کی معیشت پر بھی منفی اثر پڑ رہا ہے۔ چین میں نئے قمری سال کی چھٹیوں میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ سے توسیع کی گئی تھی۔ البتہ اب چھٹیاں ختم ہونے کے بعد لوگ بیجنگ پہنچنا شروع ہو گئے ہیں جنہیں 14 روز قرنطینہ میں رہنے کے احکامات دیے گئے ہیں۔