چین کے ایک دریا میں غرقاب ہونے والے بحری جہاز کو تہہ آب سے نکالنے کا کام شروع کر دیا گیا ہے اور امدادی کارکنوں کا کہنا ہے کہ اب کسی بھی مسافر کے زندہ ہونے کا کوئی امکان باقی نہیں رہا۔
پیر کو دیر گئے دریائے یانگزے میں ڈوبنے والے جہاز پر عملے کے ارکان سمیت 456 افراد سوار تھے جن میں اکثریت 50 سے 80 سال کے عمر کے لوگوں کی بتائی گئی۔
یہ بحری جہاز مغربی چینی شہر نانجنگ سے چانگ کنگ کی طرف جا رہا تھا کہ طوفان کی زد میں آنے کے بعد ڈوب گیا۔
وسیع پیمانے پر شروع کی گئی امدادی سرگرمیوں کے دوران صرف 14 لوگوں کو بچایا جا سکا جب کہ 97 لاشیں بھی نکالی جا چکی ہیں اور 300 سے زائد افراد لاپتا ہیں جن کے زندہ بچنے کی امکانات معدوم ہو چکے ہیں۔
جمعہ کو امدادی کارکنوں نے اس بحری جہاز کو دریا سے نکالنے کا کام شروع کیا گیا۔
وزارت ٹرانسپورٹ کے ترجمان شو چینگوانگ نے جمعہ کو صحافیوں کو بتایا کہ جہاز کو دریا سے نکالنے کے بعد اس کے مختلف حصوں سے لاشیں برآمد کرنے کا عمل شروع ہو گا۔
باور کیا جاتا ہے کہ جہاز ڈوبنے کے دوران بہت سے لوگ اس کے مرکزی حصے میں ہی محصور ہو گئے تھے۔
ہلاکتوں کی تعداد میں انتہائی اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے اور اس طرح یہ کئی دہائیوں میں چین میں پیش آنے والا بدترین سمندری حادثہ ہوگا۔
بیجنگ نے عزم ظاہر کیا تھا کہ وہ حادثے میں بچ جانے والوں کی تلاش کے لیے سرتوڑ کوشش کرے گا لیکن وہ لاپتا مسافروں کے بہت سے رشتے داروں کو مطمیئن کرنے میں ناکام رہا ہے اور لواحقین حکام کی طرف سے معلومات کی فراہمی کو غیر تسلی بخش قرار دے رہے ہیں۔
ایک روز قبل کشتی کے بہت سے مسافروں کے رشتے داروں نے جائے حادثہ کی طرف جانے کے لیے وہاں کھڑی رکاوٹوں کو توڑا۔ حکام نے وعدہ کیا ہے کہ وہ انھیں جائے حادثہ تک جانے کی اجازت دیں گے۔