حالیہ دنوں میں مصنوعی ذہانت کی سائنس میں ہونے والی پیش رفت کے بعد سائنس دانوں کے حلقوں میں یہ بحث زور پکڑ رہی ہے کہ کیا چین اس سلسلے میں دوسروں پر سبقت لے جائے گا؟
مصنوعی ذہانت کے مستقبل میں تجارت سے لے کر فوجی قوت پر بہت زیادہ اثرات مرتب ہوں گے۔
چین کی مصنوعی ذہانت کی سائنس میں پیش رفت کے بارے میں امریکہ کو خدشات لاحق ہیں۔ امریکہ نے حالیہ دنوں میں دونوں ممالک کے مابین جاری تجارتی کشمکش کے دوران چین پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔
امریکہ اور یورپین یونین اس سلسلے میں کوشش کر رہے ہیں کہ ان کی جانب سے معلومات کے اجرا کو روکا جائے تاکہ چینی کمپنیاں اس سے فائدہ اٹھا کر مغربی ممالک کی کمپنیوں کو نقصان نہ پہنچائیں۔
مگر بہت سے ماہرین کا کہنا ہے کہ مغربی دنیا کی طرف سے سرد مہری کے باوجود چینی کمپنیاں اور دفاعی ریسیرچ مصنوعی ذہانت اور 5G کے ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی کر سکتی ہے۔ چین ایسے بہت سے کاروبار میں باقی دنیا سے آگے ہے جن میں خودکار گاڑیاں، چہرے کی شناخت اور مختلف قسم کے ڈرون شامل ہیں۔
امریکہ سے تعلق رکھنے والے تحقیقاتی ادارے، ’ایلن انسٹی ٹیوٹ‘ نے حال ہی میں ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ تعداد کے لحاظ سے امریکہ کے بعد چین مصنوعی ذہانت کے شعبے میں لکھے جانے والے تحقیقاتی مقالوں میں دوسرے نمبر پر ہے۔
پچھلے برس امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ایگزیکٹو آرڈر کے تحت ریاستی ایجنسیز کو حکم دیا کہ وہ مصنوعی ذہانت کے میدان میں مزید کام کریں۔
صدر ٹرمپ نے کہا کہ ‘‘مصنوعی ذہانت کے میدان میں امریکہ کی سبقت اس بات کی ضامن ہے کہ ہم اپنی قومی سلامتی اور معاشی برتری کو برقرار رکھ سکیں۔’’
ناقدین کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈر میں حکومت کی جانب سے مصنوعی ذہانت کے تحقیقاتی پراجیکٹس پر سرمایہ کاری اور نئے ٹیلنٹ کو متوجہ کرنے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
نئو امریکی سیکورٹی سینٹر کے سینئیر فیلو جارج ایلن کے مطابق امریکی ڈیفینس ایڈوانسڈ ریسرچ پراجیکٹس ایجنسی پانچ برس کے دوران اس سلسلے میں دو ارب ڈالر سرمایہ کاری کر رہی ہے، جب کہ چین کے صوبے سنکیانگ کی شہری حکومت اگلے دس برس کے دوران مصنوعی ذہانت کی تحقیق پر 15 ارب ڈالر سرمایہ کاری کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔
ابھی بھی امریکہ مصنوعی ذہانت سے متعلق ٹیکنالوجی میں پوری دنیا پر سبقت رکھتا ہے جیسا کہ خودکار گاڑیاں، مشین کے ذریعے ترجمہ، ویب سرچ وٖغیرہ۔ اس میدان میں چین کچھ جگہوں پر سبقت رکھتا ہے اور اس کی وجہ اس کی وسیع مقامی مارکیٹ ہے۔