ایک خصوصی عالمی عدالت نے منگل کو متفقہ طور پر فیصلہ دیا ہے کہ چین کے بحیرہ جنوبی چین پر ملکیت کے دعووں کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔
ہیگ میں قائم عدالت کے قانونی ماہرین نے فیصلہ دیا ہے کہ چین کے سمندری وسائل پر ملکیت کے تاریخی دعوے اگر اقوام متحدہ کے سمندری حدود سے متعلق معاہدے کے تحت قائم کیے گئے خصوصی اقتصادی زون سے مطابقت نہیں رکھتے تو ان کی کوئی حیثیت نہیں۔
اگرچہ چین نے بحری حدود سے متعلق اقوام متحدہ کے کنونشن پر دستخط کر رکھے ہیں مگر چین کے سرکاری ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ چین نہ تو اس عدالت کو مانتا ہے اور نہ ہی اس فیصلے کو تسلیم کرتا ہے۔
چین نے عدالت کی کارروائی کا یہ کہہ کر بائیکاٹ کر رکھا تھا کہ یہ تنازع عدالت کے دائرہ کار میں نہیں آتا۔ اس کا مؤقف تھا کہ اس مسئلے کو دو طرفہ مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہیئے۔
فلپائن نے 2013 میں سکیربورو شول نامی سمندری چٹان پر چین کے جارحانہ اقدامات کے خلاف ہیگ میں قائم پرماننٹ کورٹ آف آربٹریشن میں اپنا دعویٰ دائر کیا تھا۔ فلپائن کا الزام تھا کہ چین بحری حدود سے متعلق اقوام متحدہ کے کنونشن کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔
فلپائن نے اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ فیصلہ ایک ’’سنگ میل‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے اور چین کے ساتھ علاقائی تنازعات کے پرامن حل کے عزم کا بھی اعادہ کیا۔
اگرچہ عالمی قانون کے تحت تمام فریقین اس فیصلے پر عملدرآمد کرنے کے پابند ہیں مگر عدالت کے پاس کوئی ایسا طریقہ نہیں جس سے وہ اپنے فیصلے کو نافذ کروا سکے۔
بحیرہ جنوبی چین کے علاقے سے سالانہ لگ بھگ پانچ کھرب ڈالر کا سامان تجارت گزرتا ہے۔ یہاں ماہی گیری کے علاقے اور ممکنہ طور پر تیل، گیس اور دیگر قدرتی وسائل بڑی مقدار میں موجود ہیں۔
چین کا دعویٰ ہے کہ وہ بحیرہ جنوبی چین کے لگ بھگ 35 لاکھ مربع کلومیٹر کے پورے علاقے کا مالک ہے جبکہ برونائی، ملائیشیا، ویتنام، تائیوان اور فلپائن بھی بحیرہ جنوبی چین کے مختلف علاقوں پر ملکیت کا دعویٰ رکھتے ہیں۔
چین نے اس بحیرہ میں مصنوعی جزائر کی تعمیر کا کام شروع کر رکھا ہے جن پر فوجی تنصیبات قائم کی جا سکتی ہیں۔
امریکہ نے بھی علاقے میں چین کی بڑھتی ہوئی جارحانہ سرگرمیوں کو روکنے کے لیے علاقے میں بحری مشقین منعقد کرنے کے علاوہ مصنوعی جزائر کے قریب جنگی بحری جہاز تعینات کیے ہیں تاکہ بحری سفر کی آزادی کے ضوابط کی پاسداری کی جا سکے۔