اقوام ِمتحدہ، امریکہ کی چین میں انسانی حقوق کی صورتِ حال پرنکتہ چینی

اقوامِ متحدہ کے ایک گروپ نے حالیہ ماہ کے دوران چین میں ہونے والی حراستوں اور لاپتا ہونے والے افراد کے معاملے پر موصولہ رپورٹوں پر نکتہ چینی کی ہے۔

چین میں منظم یا مبہم طورپر لاپتا ہونے والے افراد کے بارے میں اقوام متحدہ کے اِس ورکنگ گروپ کے ارکان نے کہا ہے کہ اُن کو متعدد ایسی رپورٹیں موصول ہوئی ہیں جِن سے پتا چلتا ہے کہ چین کے شہری لاپتا ہوئے ہیں۔

گروپ کا کہنا ہے کہ ایسے افراد جو اختلافِ رائے کے حامل ہیں اُنھیں مخفی حراستی مراکز پر رکھا جاتا ہے جہاں اُن کو اذیت دی جاتی ہے یا ڈرایا دھمکایا جاتا ہے۔ رہا ہونےپر اُنھیں اُن مراکز میں رکھا جاتا ہے جنھیں ’ہلکی قید‘ کا نام دیا جاتا ہےاور بیرونی دنیا سے اُن کا رابطہ کٹا رہتا ہے۔

ورکنگ گروپ نے کہا ہے کہ وکیل، انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں اور طلبا کو خصوصی طور پر قید کیا جاتا ہے اور کئی ایک معاملوں میں اُنھیں کئی برس تک زیرِ حراست رکھا جاتا ہے۔ لاپتا ہونے والوں میں گیدون چوکی نیما شامل ہیں، جو تبت کی بودھ مت کی مذہبی شخصیت ہیں ، جنھیں11ویں پنچن لاما کے طور پر جانا جاتا ہے۔ وہ 1995ء میں اُس وقت لاپتا ہوئے جب وہ چھ برس کے تھے۔ چین کے اہل کاروں نے تسلیم کیا ہے کہ اُنھوں نے ہی اُنھیں غائب کیا تھا لیکن کبھی بھی یہ نہیں بتایا کہ وہ کہاں ہیں۔
جمعے کے روز گروپ کی طرف سے یہ بیان اُسی دِن سامنے آیا جب امریکی محکمہٴ خارجہ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ انسانی حقوق کے بارے چین کی کارکردگی منفی رجحان کی غماز ہے۔

محکمہٴ خارجہ کی سالانہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چین کی طرف سے تقریر کی آزادی پر قدغنیں لگانے اور کمیونسٹ پارٹی کی حکمرانی کے ناقدین کو خاموش کرنے کے حوالے سے کوششیں تیز تر ہوگئی ہیں۔

امریکی وزیرِ خارجہ ہلری کلنٹن نے جمعے کے روز چین سےمنحرفین اور سرگرم سماجی کارکنوں کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔


ہلری کلنٹن نے چین میں اختلاف رائے کے خلاف إِسی سال ہونے والی تشدد کی کارروائی پر تشویش کا اظہار کیا، جس کے بارے میں انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ چین مشرق وسطیٰ میں رونما ہونے والے جمہوریت پسند احتجاجی مظاہروں کواپنے ملک میں پھیلنے سے روکنا چاہتا ہے۔