چین نے افغان صدراشرف غنی کی طالبان کو مذاکرات کی پیش کش کو سراہتے ہوئے اس توقع کا اظہار کیا ہے کہ مختلف افغان دھڑے اپنے اختلافات ختم کر کے افغانستان کے پائیدار امن و استحکام کے لیے مل کر کام کریں گے۔
چین کی وزرات خارجہ کی ترجمان خوا چن ینگ نے یہ بات جمعرات کو معمول کی میڈیا بریفنگ کے دوران افغان صدر کی طرف سے طالبان کو مذاکرات کی پیش کش سے متعلق چین کے ردعمل کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہی۔
چن ینگ نے کہا کہ ’ چین افغانوں کی قیادت اور شمولیت میں سیاسی مصالحتی عمل کو آگے بڑھانے میں افغانستان کی حمایت کرتا ہے۔ اور اس کا موقف ہے کہ افغانستان میں مختلف دھڑے اپنے اختلاف پرامن طریقے سے سیاسی مذاکرات کے ذریعے حل کریں۔ ‘
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ ماضی میں طالبان کابل حکومت کے ساتھ بات چیت سے انکار کرتے رہے ہیں تاہم موجودہ صورت حال میں چین کا کھل کر صدر اشرف غنی کی کوششوں کی حمایت کرنے سے طالبان پر بات چیت کے لیے دباؤ بڑھے گا۔
افغان امور کے ماہر اور سینئر صحافی رحیم اللہ یوسف زئی نے جمعرات کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ افغان صدر اشرف غنی کی طرف سے طالبان کو مذاکرات کی پیش کش میں ہر ممکن لچک دکھائی گئی ہے۔
’ طالبان چین کو ناراض تو نہیں کریں گے ان کی بات کو وہ سنیں گے۔ فیصلہ تو و ہ خود ہی کریں گے لیکن انہیں چین، پاکستان اور دنیا کی بات کو سننا پڑے گا۔ لیکن اگر وہ امن مذاکرات کا حصہ نہیں بننا چاہتے تو کہا جائے گا کہ وہ مذاکرات نہیں بلکہ جنگ کو جاری کو رکھنا چاہتے ہیں۔‘
رحیم اللہ نے مزید کہا کہ اگرچہ ان کی خیال میں طالبان کی طرف سے تاحال افغان حکومت کی پیش کش پر رسمی طور پر کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا گیا ہے تاہم انھوں نےکہا کہ افغان امن و مصالحت کے حوالے سے یہ پیش کش اہم ہو سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’ طالبان دو ہفتے پہلے کہہ چکے ہیں کہ وہ امریکہ کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہیں اور میرا خیا ل ہے کہ وہ وہی بات دوہرائیں گے اور کہیں گے غیر ملکی فوجیں افغانستان سے چلی جائیں لیکن اگر ایسی کوئی ضمانت ملتی ہے کہ امریکہ، پاکستان، چین اور افغان حکومت یہ کہیں کہ اس پر بات چیت ممکن ہے تو پھر شاید کوئی بات آگے بڑھے۔‘
دوسری طرف پاکستان کے وزیر خارجہ خواجہ آصف نےبھی افغان صدر اشرف غنی کی امن مذاکرات کی پیش کش کی کامیابی کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے۔ انہون نے ٹوئٹر پر اپنے بیان میں کہا کہ افغانستان کو درپیش مسائل کا بہتر حل افغانوں کی زیرِ قیادت امن و مصالحت کے عمل کے ذریعے ہی سامنے آ سکتا ہے۔
واضح ر ہے کہ صدر اشرف غنی نے رواں ہفتے کابل پراسس کانفرنس میں طالبان کو ایک باقاعدہ سیاسی گروپ کے طور پر تسلیم کرنے کی پیش کش کرتے ہوئے انہیں امن مذاكرات کا حصہ بننے کے لیے کہا تھا۔