کیا اس بچے کو بچایا جا سکتا تھا؟

  • ندیم یعقوب

فائل

آپ میں سے بہت سوں نے اخبارات میں اور سوشل میڈیا پر ضلع بٹگرام کے ایک گاؤں میں رہنے والے بچوں کی سی بھولی بھالی شکل کے 14 برس کے محمد عدنان کی تصویر دیکھی ہوگی، جس نے ایک ہفتہ پہلے پھندے سے لٹک کر خودکشی کرلی تھی۔

پولیس کی تفتیش کے دوران معلوم ہوا کہ تقریباً چھ ماہ پہلے عدنان کے گاؤں شنگلی بالا کے دو مردوں نے اس کے ساتھ جنسی زیادتی کر کے اس کی ویڈیو بنائی تھی اور وہ نہ صرف ساتویں جماعت کے اس بچے کو بلیک میل کر رہے تھے بلکہ انہوں نے اس وڈیو کو کچھ اور لوگوں کے ساتھ شئیر بھی کیا۔اور وہ سبھی اس بلیک میلنگ میں شامل ہوگئے۔

اپنے چچا کے خاندان میں پلنے بڑھنے والا یہ یتیم بچہ، بے عزتی، خوف، شرم اور سب سے بڑھ کر لوگوں کو پتا لگ جانے کی دہشت کو زیادہ دن برداشت نہ کر سکا۔ وہ کس دردناک عذاب سے گزرا ہوگا، یہ تصور کرنا بھی مشکل ہے۔ اس کے معصوم ذہن میں واحد حل اپنی جان لینا ہی تھا۔

خاندان والوں کو بالکل اندازہ نہیں تھا کہ 14 سالہ لڑکا کس اعصابی اور ذہنی دباؤ سے گزر رہا ہے۔

بچے کے چچا محمد اسحاق نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ انہیں افسوس اس بات کا ہے کہ عدنان کے چچازاد بھائیوں کو کچھ اندازہ تھا کہ عدنان کے ساتھ کیا واقعہ پیش آیا ہے، مگر انہوں نے بھی گھر میں کسی بڑے کو اس بارے میں نہیں بتایا ورنہ شاید اس بچے کی جان بچائی جا سکتی۔

جلد ہی مقامی پولیس نے دو مشتبہ افراد کو گرفتار کر لیا۔ اس خود کشی نے گاؤں کے لوگوں کو ہلا دیا۔ انہوں نے پشتون قبائلی روایات کے مطابق، جرگہ کر کے فیصلہ کیا کہ عدنان کا خاندان واقعے میں ملوث افراد سے جو بھی بدلہ لینا چاہے لے سکتا ہے۔ ویسے تو اس ہولناک المیے سے کوئی خوش آئند نتیجہ برآمد ہونا ممکن نظر نہیں آتا۔ لیکن، عدنان کے خاندان نے پولیس اور عدالتی نظام پر اعتماد کا اظہار کیا۔ اور کہا کہ وہ فیصلہ قانونی عمل کے ذریعے چاہتے ہیں۔ یہ ایک روائتی نظام میں انقلابی فیصلہ تھا۔

اس واقعے کے چند روز بعد ہی ہری پور میں ایک سات سالہ بچے کو جنسی زیادتی کے بعد ہلاک کر دیا گیا۔

پاکستانی میڈیا میں آئے روز بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات کی رپورٹیں آتی رہتی ہیں۔ کیا اب ایسے واقعات کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے؟ یا ان واقعات کو زیادہ رپورٹ کیا جانے لگا ہے؟ یہ معلوم کرنے کے لئے وائس آف امریکہ نے اسلام آباد میں بچوں کی فلاح کے لئے کام کرنے والے غیر سرکاری ادارے، ’ساحل‘ سے رابطہ کیا۔ تنظیم کے میڈیا کوآرڈینیٹر، ممتاز حسین گوہر کہتے ہیں کہ پاکستان کے بچے پہلے بھی محفوظ نہیں تھے اب بھی نہیں ہیں۔ بقول اُن کے، ’’سن 2018ء میں ہر روز تقریباً ایک درجن واقعات رپورٹ ہو رہے تھے۔ مگر اب ایسے واقعات کی شرح زیادہ ہو گئی ہے۔‘‘

وہ کہتے ہیں کہ ان واقعات کے بارے میں اعداد و شمار جمع کرنے کے لئے وہ پاکستان کے 80 سے زائد اخبارات کا سہارا لیتے ہیں اور پھر تصدیق کے لئے ان کا ادارہ مقامی پولیس سے رابطہ کرتا ہے۔

’ساحل‘ کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق، گزشتہ سال چاروں صوبوں اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر، گلگت بلتستان اور اسلام آباد میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے 3832 واقعات رپورٹ ہوئے۔ یہ سن 2017 کے مقابلے میں 11 فی صد اضافہ ہے۔

ممتاز حسین گوہر نے بتایا کہ سب سے زیادہ واقعات پنجاب میں ہوتے ہیں؛ پھر سندھ کا نمبر آتا ہے؛ جب کہ بلوچستان اور خیبرپختونخوا تیسرے اور چوتھے نمبر پر آتے ہیں۔

تاہم، ممتاز حسین کہتے ہیں کہ پشتون آبادی والے صوبوں میں واقعات تو زیادہ ہوتے ہیں مگر روایات اور سماجی رویوں کی وجہ سے بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے معاملات کو دبا دیا جاتا ہے۔ ’ساحل‘ کے مطابق، جنسی زیادتی کا شکار ہونے والے بچوں میں 55 فی صد لڑکیاں، جبکہ 45 فی صد لڑکے ہوتے ہیں۔

اسلام آباد کے ’پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز‘ سے منسلک نفسیاتی امراض کے ماہر، ڈاکٹر رضوان تاج کہتے ہیں کہ زیادہ تر خود خاندان کے افراد یا رشتہ دار بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی میں ملوث ہوتے ہیں۔ اس لئے، ماں باپ معاشرتی دباؤ کے پیش نظر ایسے واقعات پر پردہ ڈالتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’’بچوں کےساتھ جنسی زیادتی کرنے والے لوگ قطعی طور پر نارمل نہیں ہوتے۔ یہ لوگ جنسی ہوس پوری کرنے کے لئے بچوں کی جانب راغب ہوتے ہیں۔ اور والدین میں یہ شعور نہیں ہے کہ بچوں کو کیسے محفوظ رکھا جائے۔‘‘

ان کا کہنا ہے کہ ’’بچوں کو شکار بنانے کی سب سے بڑی وجہ ہی یہ ہے کہ انہیں آسانی سے ڈرایا دھمکایا جا سکتا ہے‘‘۔

ڈاکٹر رضوان کا خیال ہے کہ ایسے واقعات کا تدارک تب ہی ممکن ہے اگر والدین اور اساتذہ مل کر بچوں پر نظر رکھیں۔ اگر ان کے رویے میں معمول سے ہٹ کر کوئی تبدیلی نظر آئے تو دھمکا کر نہیں بلکہ پیار سے اس کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کی جانی چاہیے؛ اور بچوں میں شعور پیدا کریں کہ اپنے ساتھ کسی بھی معمول سے ہٹ کر واقعے کے بارے والدین کو یا بڑوں کو بتائیں۔

شنگلی بالا کے لوگوں کا اکٹھے ہو کر عدنان کے ساتھ زیادتی کرنے والوں کو گرفتار کرنا اور قانون تک پہنچانا ان المناک واقعات کو روکنے کی ایک مثال ثابت ہو سکتا ہے۔