لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس قاسم خان نے کہا ہے کہ بدھ کو فوج سے متعلق اُن کے ریمارکس پورے ادارے کے خلاف نہیں بلکہ ایک مخصوص 'مائنڈ سیٹ' کے خلاف تھے۔ عدالتی ریمارکس کسی ادارے کا دل دکھانے کے لیے نہیں ہوتے۔
جمعرات کو متروکہ وقف املاک بورڈ کی اراضی قبضہ کیس کی سماعت کے دوران ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ بدھ کو ہونے والی سماعت کے دوران عدالتی ریمارکس واپس لیے جائیں۔
چیف جسٹس قاسم خان نے کہا کہ چار وکلا کسی رکشے والے سے جھگڑا کریں تو پوری وکلا برادری بدنام ہوتی ہے۔
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ قاسم خان نے کہا کہ اگر وہ کسی دکان میں جائیں اور جھگڑا شروع کر دیں تو لوگ یہ کہیں گے کہ قاسم خان نہیں بلکہ چیف جسٹس نے جھگڑا کیا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ اُنہیں گیارہ سال ہو گئے ہیں، کئی جگہوں پر اپنے آپ پر جبر کر کے آ جاتے ہیں۔
اُنہوں نے کہا کہ ہائی کورٹ کا جج کسی ادارے میں بیٹھا ہو تو اسے اپنا وقار (ڈیکورم) برقرار رکھنا ہوتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اِسی طرح فوج کے حاضر سروس افسر ڈی ایچ اے یا کسی اور ادارے میں آ کر غلط کام کریں گے تو بدنام کون ہو گا؟ اُنہیں اپنے ادارے کی ساکھ اور اُس کے قواعد و ضوابط کا خیال رکھنا ہو گا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اس ملک کے 22 کروڑ عوام اُس فوجی کی جو کشمیر، سیاچن اور دیگر محاذوں پر بیٹھا ہے، اس کا احترام اس کے ساتھیوں سے زیادہ کرتے ہیں۔ اُنہوں نے واضح کیا کہ گزشتہ روز ہونے والی سماعت کے دوران عدالتی ریمارکس پوری فوج کے خلاف نہیں تھے۔ وہ ریمارکس فوج کے کچھ لوگوں کی وجہ سے تھے۔
اِس موقع پر درخواست گزار کے وکیل آصف عمران نے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ کے 2007ء کے فیصلے میں ڈی ایچ اے کا زمین پر حق معطل ہو چکا ہے۔
چیف جسٹس قاسم خان نے ریمارکس دیے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو اقلیتوں کی وقف جائیدادیں بھی کھا گئے ہیں۔ جو کسی وقت میں ایف اے ٹی ایف سے زیادہ بڑا ایشو بنے گا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اوقاف کی زمینوں پر بڑے بڑے پلازے بنے ہوئے ہیں۔ اُنہوں نے مزید کہا، یہ مسئلہ جِس دن عالمی سطح پر اٹھا تو یہ کیس ایف اے ٹی ایف سے زیادہ بڑا کیس بن جائے گا۔
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے درخواست گزاروں کی زمین کی قانونی حیثیت تبدیل نہ کرنے کا حکم دیتے ہوئے ڈی ایچ اے کے وکیل کو انتظامیہ سے ہدایات لے کر تین مئی کو عدالت میں پیش ہونے کی ہدایت کر دی۔
بدھ کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہا تھا؟
واضح رہے گزشتہ روز عدالتِ عالیہ لاہور کے چیف جسٹس قاسم خان نے کہا تھا کہ فوج کا کام قبضہ کرنا نہیں ہے۔ وہ رجسٹرار ہائی کورٹ کو کہہ رہے ہیں کہ آرمی چیف کو خط لکھیں اور بتائیں کہ فوج کیا کر رہی ہے۔
دورانِ سماعت چیف جسٹس نے ایک موقعے پر یہ بھی کہا تھا کہ آپ پولیس کی بات کر رہے ہیں، یہاں آرمی نے ہائی کورٹ کی پچاس کنال اراضی پر قبضہ کیا ہوا ہے۔
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے تھے کہ یوں لگتا ہے فوج سب سے بڑی قبضہ گروپ بن گئی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ وہ جمعرات کو کور کمانڈر لاہور اور ڈی ایچ اے کو بلا لیتے ہیں۔ یہ معاملہ رسہ گیری کی قسم ہے۔
اُنہوں نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ فوج کا کام قبضہ کرنا نہیں ہے۔ اُن کے منہ سے فوج سے متعلقہ جملہ غلط نہیں نکلا۔ اللہ تعالیٰ نے اُن کے منہ سے سچ بلوایا ہے۔
SEE ALSO: پاکستان: افواج کو بدنام کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی تجویز، حزبِ اختلاف مخالف کیوں؟واضح رہے کہ کیس میں متروکہ وقف املاک بورڈ کی اراضی پر ڈی ایچ اے کے قبضے کے خلاف درخواستوں میں درخواست گزار کی جانب سے مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ 300 کنال سے زائد متروکہ وقف املاک بورڈ کی اراضی 2020سے لیز پر حاصل کی۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ ڈی ایچ اے نے لیز شدہ اراضی پر غیر قانونی قبضہ کر رکھا ہے، عدالت سے استدعا ہے کہ ڈی ایچ اے سے قبضہ واگزار کرانے کا حکم دیا جائے۔
گزشہ روز ہونے والی سماعت میں ڈی ایچ اے کے وکیل الطاف الرحمان نے عدالت کو بتایا کہ 2007ء میں لیفٹننٹ جنرل ذوالفقار نے بطور چیئرمین متروکہ وقف املاک بورڈ ڈی ایچ اے کو 1742 کنال زمین دی۔ 2007 میں متروکہ وقف املاک نے 1742 کنال زمین کے بدلے 33 فی صد ڈویلپڈ پلاٹ مانگے۔
واضح رہے کہ گزشتہ سال متروکہ وقف املاک بورڈ نے تین سے چار افراد کو لیز پر زمین دی تھی۔ درخواست گزاروں کے مطابق جب وہ زمین کا قبضہ لینے گئے تو معلوم ہوا کہ اُن کی زمینوں پر ڈی ایچ اے لاہور قابض ہے۔ جس پر اُنہوں نے عدالت سے رجوع کر رکھا ہے۔
گزشتہ روز ہونے والی سماعت میں چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے ڈی ایچ اے کے وکیل پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ایڈمنسٹریٹر ڈی ایچ اے بریگیڈیئر وحید گُل ستی کو طلب کیا تھا۔
اِس دوران عدالتی کارروائی کچھ دیر کے لیے ملتوی ہوئی۔ وقفے کے بعد جب سماعت دورباہ شروع ہوئی تو ڈی ایچ اے کے ایڈمنسٹریٹر بریگیڈیئر وحید گُل ستی عدالت میں پیش نہیں ہوئے جبکہ سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر عدالت میں پیش ہو گئے۔
وکیل ڈی ایچ اے الطاف الرحمان نے عدالت کو بتایا کہ بریگیڈیئر ستی سپریم کورٹ میں ایک کیس کی سماعت کے سلسلے میں اسلام آباد گئے ہوئے ہیں۔ وہ جمعرات کو واپس آ جائیں گے۔
چیف جسٹس نے سی سی پی او لاہور سے کہا کہ ڈی ایچ اے کے خلاف کسی بھی تھانے میں اندراج مقدمہ کی درخواست آئے تو اس پر کارروائی کی جائے۔
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کے فوج سے متعلق بیان پر پاکستان میں سوشل میڈیا پر بحث کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ بعض حلقے چیف جسٹس کے اس بیان کو زمینی حقائق قرار دے رہے ہیں جب کہ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ اس سے اداروں کے درمیان تصادم کا خدشہ ہو سکتا ہے۔