فرانسیسی صدر فرانسواں اولاں نے ہفتے کے دِن آزادی اظہار کے حق کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ’چارلی ہیبڈو‘ معاملے پر دیگر ملکوں میں احتجاج کرنے والے آزادی اظہار کے ساتھ فرانس کی وابستگی کی تاریخ سے نابلد ہیں۔
اُن کے اِس بیان سے ایک ہی روز قبل دنیا بھر کے مسلمانوں کے اجتماعات نے فرانسیسی مزاحیہ جریدے، ’چارلی ہیبڈو‘ میں پیغمبر اسلام سے متعلق خاکوں کی اشاعت پر احتجاجی مظاہرے کیے، جن میں سے کچھ مظاہروں نے پُرتشدد صورت اختیار کی۔
نائجر کے جنوبی قصبے، زندار میں کم از کم چار افراد ہلاک ہوئے، جہاں مظاہرین نے ایک فرانسیسی ثقافتی مرکز اور متعدد گرجا گھروں کو نذرِ آتش کیا، اور مسیحی برادری کی دکانوں پر ڈنڈوں اور آتشیں ’مولوٹوف کاکٹیلس‘ کا ہدف بنایا، جس صورت حال کو کنٹرول کرنے کے لیے پولیس نےآنسو گیس کے گولے برسائے۔
وزیر داخلہ، حسومی مسعود نے سرکاری تحویل میں کام کرنے والے ٹیلی ویژن کو بتایا کہ تھانے پر کیے گئے حملے کے دوران تین شہری ہلاک ہوئے، جن میں دو افراد پر پولیس نے گولیاں چلائی تھیں۔ ایک پولیس اہل کار گاڑی کے نیچے آکر ہلاک ہوا، جب کہ 45 دیگر افراد زخمی ہوئے۔
مسعود نے بتایا کہ زندار کی صورت حال ’نیم باغیانہ‘ کیفیت کی تھی۔ بقول اُن کے، ’میں مسیحیوں کو اس بات کا یقین دلانا چاہتا ہوں کہ حکومت اُن افراد کا دفاع کرے گی جو نائجر میں رہنے کے خواہشمند ہیں‘۔
عینی شاہدین نے بتایا ہے کہ مظاہرین کے جتھے، جن میں زیادہ تر نوجوان شامل تھے، اُنھوں نے پولیس اہل کاروں کے گھروں اور صدر محمدو یسوفو کی پارٹی کےمقامی صدر دفتر کو آگ لگا دی۔
ابوبکر ممانے ایک دکاندار ہیں۔ بقول اُن کے، ’مظاہرین مقامی ہوسا زبان میں نعرہ بلند کر رہے تھے: چارلی شیطان ہے۔۔چارلی کی حمایت کرنے والے دوزخ کے حقدار ہیں‘۔
مقامی لوگوں نے بتایا کہ، رات کا اندھیرا چھانے کے بعد سڑکیں ویران ہوگئیں۔ تاہم، نیامے میں فرانس کے سفارت خانے نے باہر نکلے ہوئے شہریوں کو مشورہ دیا کہ وہ کشیدہ صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے، چوکنہ رہیں۔
حالانکہ مسلمان اکثریت والے اس مغربی افریقی ملک کی حکومت نے ’چارلی ہیبڈو‘ جریدے کی ملک بھر میں تقسیم پر پابندی لگا رکھی ہے، نائجر میں پُرتشدد واقعات بھڑک اٹھے ہیں۔
ثانی ایرو، حکمراں ’نائجیرین پارٹی فور ڈیموکریسی اینڈ سوشلزم‘ کے مواصلات کے سربراہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ’چارلی ہیبڈو‘ جریدے پر پابندی لگا کر، حکومت نے ملک کے امن و امان کو برقرار رکھنے کی واضح کوشش کی۔
ادھر، کراچی میں پُرتشدد احتجاج ہوا، جب سینکڑوں کی تعداد میں لوگوں کے اجتماع کی پولیس کے ساتھ جھڑپ ہوئی۔ تین زخمی ہونے والوں میں فرانسیسی خبر رساں ادارے، اے ایف پی کے فوٹوگرافر بھی شامل ہیں۔
اِسی طرح کے مظاہرے پاکستان کے دیگر بڑے شہروں میں بھی ہوئے، جِن میں اسلام آباد اور لاہور شامل ہیں۔
یمن میں، ہفتے کے روز مظاہرین صنعاٴمیں واقع فرانسیسی سفارت کے سامنے اکٹھے ہوئے، اور فرانس کے مزاحیہ ہفت روزہ کی طرف سے مذہبی خاکے شائع کرنے پر جریدے کے خلاف نعرے بازی کی۔
الجیریا میں پولیس اور مظاہرین میں اُس وقت جھڑپ ہوئی جب احتجاج کرنے والوں نے ملک کے دارالحکومت میں واقع ایک ساحلی علاقے میں پولیس پر سنگ باری کی اور بوتلیں پھینکیں۔
مالی، سنیگال اور موریطانیہ کے مغربی افریقی ملکوں کے دارالحکومتوٕں میں زیادہ تر پُرامن ریلیاں نکالی گئیں۔
عمان میں،نماز جمعہ کے بعد، اردن کے شہریوں نے فرانسیسی مزاحیہ جریدے کی طرف سے کارٹوں شائع کرنے پر احتجاج کیا۔
سوڈان میں، مظاہرین نے خرطوم کی سڑکوں پر فرانس اور ’چارلی ہیبڈو‘ کے خلاف ریلیاں نکالیں۔ کچھ مظاہرین نے بڑے بڑے بینر اٹھا رکھے تھے، جن میں ’مرگ بر فرانس‘ اور ’چارلی ہیبڈو نے پیغمبر کا مذاق اڑایا ہے‘ درج تھے۔
اسی طرح، ترکی کے شہر استنبول میں احتجاجی مظاہرے ہوئے۔
چارلی ہیبڈو کے تازہ ترین شمارے میں بھی پیغمبر اسلام کے خاکے شائع کیے گئے ہیں۔ گذشتہ ہفتے پیرس میں جریدے کے دفاتر پر مسلح حملے کے بعد، جس میں 12 افراد ہلاک ہوئے، یہ اس جریدے کا پہلا شمارہ ہے۔
متعدد مسلمان جریدے کی طرف سے پیغبر اسلام کے خاکے شائع کرنے کو اسلام کی بے حرمتی خیال کرتے ہیں۔
اسلام میں، بت پرستی سے بچنے کے لیے، خدا کے تمام پیغمبروں اور برگزیدہ مذہبی ہستیوں کی تصاویر کشی ممنوع ہے۔