سپریم کورٹ کیلئے صدر ٹرمپ کے نامزد اُمیدوار بریٹ کیوانو کی توثیق کا مرحلہ اس الزام کے باعث مشکلات کا شکار ہو گیا ہے کہ اُنہوں نے اب سے تین دہائیاں پہلے زمانہ طالب علمی میں ایک نوجوان لڑکی کو جنسی طور پر ہراساں کیا تھا۔
کیوانو اور یہ لڑکی اُس وقت ہائی سکول میں پڑھتے تھے۔
بریٹ کیوینو کی سپریم کورٹ کیلئے جج کی نامزدگی کی توثیق سے سپریم کورٹ میں قدامت پسند ججوں کی تعداد میں اضافہ ہو جائے گا۔ تاہم, اُن پر کرسٹین بلاسے فورڈ نامی خاتون نے ’واشنگٹن پوسٹ‘ کو دئے گئے ایک انٹرویو میں الزام لگایا ہے کہ 1980 کی دہائی میں زمانہ طالب علمی کے دوران ایک پارٹی میں بریٹ کیوانو نے نازیبا حرکت کرتے ہوئے، اُنہیں جنسی طور پر ہراساں کیا تھا۔
نامزد کردہ جج کیوانو نے ایک بیان میں اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ایسی کسی پارٹی میں شریک ہی نہیں ہوئے تھے۔
سینیٹ میں ڈیموکریٹک پارٹی کے لیڈر سنیٹر چک شیومر کا کہنا ہے کہ اس الزام کی پوری سنجیدگی کے ساتھ تحقیقات ہونی چاہئیے۔ اُن کا کہنا ہے کہ کرسٹین فورڈ کے مؤقف کو سنا جانا چاہئیے اور کیوانو کی نامزدگی کی زبردستی منظوری سے امریکی خواتین کی ساکھ کو نقصان پہنچے گا اور یہ دھبہ سپریم کورٹ کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچائے گا۔
اس سلسلے میں ڈیموکریٹک پارٹی اور رپبلکن پارٹی کے کچھ سنیٹرز نے اُن کی نامزدگی کی توثیق کیلئے جمعرات کو ہونے والی مجوزہ ووٹنگ مؤخر کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
رپبلکن پارٹی کے ایک سینیر سنیٹر نے کہا ہے کہ عدالتی کمیٹی اس الزام کے حوالے سے عوامی سماعت کا اہتمام کرے گی۔ نامزد جج کیوانو اور الزام عائد کرنے والی خاتون کرسٹین فورڈ دونوں نے کہا ہے کہ وہ اس سماعت کے دوران اپنا اپنا مؤقف پیش کرنے کیلئے تیار ہیں۔
کرسٹین فورڈ کے وکیل کا کہنا ہے کہ اس الزام کی تحقیقات شفاف طریقے سے ہونی چاہئیے اور کسی طاقتور شخص کو موقع نہیں دینا چاہئیے کہ وہ اس الزام کو اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے دبا دے۔
تاہم، صدر ٹرمپ نے کیوینو کی نامزدگی کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ وہ بہترین لوگوں میں سے ایک ہیں اور اُن کے خلاف اس الزام سے کچھ مشکلات ضرور پیدا ہوں گی جس سے اُن کی نامزدگی کی توثیق میں معمولی سی تاخیر ہو سکتی ہے۔ لیکن، یہ تاخیر زیادہ نہیں ہو گی۔